اسکولوں میں بڑھتی ہوئی خودکشیاں: قصور کس کا؟

ہفتہ 20 مئی 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

لوگ کیا کہیں گے؟ یہ وہ جملہ ہے جو روز کسی نہ کسی وجہ سے آپ کو سننے کو ملتا ہے اور اس جملے کے خوف کی وجہ سے انسان کبھی کبھی وہ چیزیں کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے جو اس کی استطاعت سے باہر ہوتی ہیں اور ان کا بوجھ اٹھانا ناممکن سا لگتا ہے۔ معاشرے میں سب سے آگے رہنے کی دوڑ کی بنیاد بھی یقینا اس جملے سے ہی شروع ہوئی جس کی وجہ سے ہر انسان کسی نہ کسی دوڑ میں بھاگ رہا ہے اور اول آنے کی تگ و دو میں ہے۔ ایسی ہی ایک دوڑ تب شروع ہوتی ہے جب کم عمر بچوں کو ان کی مرضی کے بغیر والدین اسکول میں سب سے آگے رہنے اور امتحانات میں ہر صورت اچھے نمبر لانے کی دوڑ میں بھگانا شروع کر دیتے ہیں۔

اس دوڑ میں جہاں اول آنا ایک چیلینج ہوتا ہے وہی والدین کی امیدوں کا بوجھ بھی بچوں کے کمزور کاندھوں پر آگرتا ہے ، جس میں کئی بچے اس بوجھ کو اٹھا نہیں پاتے اور والدین کی امیدوں پر پورا نہ اترنا ان کے لیے ایک ناکامی بن جاتی ہے . والدین کی جانب سے مسلسل دباؤ اور پڑھائی کے پریشر کی وجہ سے وہ کبھی کبھی انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

ایسی ہی ایک بحث اس وقت سوشل میڈیا کی زینت بنی جب اسلام آباد کے ایک نجی اسکول میں مبینہ طور پر ایک بچی نے پڑھائی کا بوجھ برداشت نہ کرنے اور والدین کی جانب سے دباؤ کی وجہ سے خودکشی کرنے کی کوشش کی۔ یاد رہے کہ یہ اس نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں تھا بلکہ ایک ہفتے کے دوران یہ دوسرا واقعہ تھا جو خبروں کی زینت بن رہا تھا جب کے اس سے قبل بھی آئے روز اس قسم کے واقعات سننے کو ملتے رہتے ہیں۔

انہی واقعات کے تناظر میں سوشل میڈیا پر بھی ایک بحث کا آغاز ہوگیا کہ آخر اس سب صورتحال میں قصور کس کا ہے؟ کیا معاشرہ ذمہ دار ہے یا پھر یہ صرف والدین کی غلطی ہے؟ اسی حوالے سے ٹویٹر صارف اور صحافی وسیم عباسی نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا آئی ایٹ تھری میں آئی ایم سی جی سکول میں میٹرک کے امتحان میں ایک اور بچی کی چھت سے کود کر خودکشی کی کوشش ۔،چند دن پہلے بیکن ہاؤس میں بھی بچی نے خودکشی کی کوشش کی تھی۔۔ کیا ہو گیا ہے بچوں پر پڑھائی کا اتنا پریشر کیوں ڈالتے ہیں لوگ کہ وہ خودکشی کر لیں۔۔ خدارا سوچیں۔۔

 

گفتگو مزید آگے بڑھی تو صارفین اس سوال کا جواب ڈھونڈتے نظر آئے کہ آخر اس دوڑ کا اختتام کب ہوگا؟ اسی حوالے سے ایک صارف ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ لاکھوں روپے بچوں کی فیسوں پر لگتا ایک ایسی اندھی ریس لگی ہوئی جس میں ہم نے بچوں کو دوڑایا ہوا جہاں انہیں خود نہیں پتا کہ اس دوڑ کا اختتام کہاں ہوناہے جب کے ایک اور صارف کا کہنا تھا کہ آپ کے بچوں کی زندگیاں ان کے کیرئیر سے زیادہ اہم نہیں ہیں۔ زندگی امکانات کا نام ہوتی، کوئی بھی مرحلہ آخری نہیں ہوتا۔

جہاں صارفین والدین کی جانب سے بچوں پر بڑھتے ہوئے دباؤ کو افسوسناک قرار دے رہے تھے وہی کچھ صارفین ایسے بھی تھے جن کو یہ لگتا ہے کہ ان کے زمانے میں یہ پریشر کہیں گنا زیادہ تھا، صارف شمائلہ خان لکھتی ہیں کہ اس سے زیادہ پریشر تو ہماری جنریشن نے برداشت کیا ہے اماں ابا بتا دیا کرتے تھے کہ کون سی فیلڈ میں جانا ہے اس کے باوجود ہمارے ذہنوں میں ایسے خیالات کبھی نہیں آئے آج کل تو بہت آزادی ملی ہوئی ہے بچوں کو۔

 

سٹریس مینیجمنٹ نہ سکھانے کا ذمہ دار اساتذہ کو قرار دیتے ہوئے کچھ صارفین کا ماننا تھا کہ والدین کے ساتھ ساتھ اساتذہ بھی قصور وار ہیں ، صارف نسیم اکرم نے اسی حوالے سے سوال پوچھا بچوں کو سٹریس مینجمنٹ کس نے سکھانی تھی؟
پیپر میں نمبر کم آنے کا خوف کس نے پیدا کیا ہے؟

 

جہاں صارفین ان واقعات کے ذمہ داروں کا تعین کر رہے ہیں وہی کچھ صارفین ایسے بھی ہیں جو اس مسلہ کے حل کے بارے میں بھی گفتگو کررہے ہیں ، صارف عباس نے ایک حل تجویز کرتے ہوئے لکھا کہ بچوں کو رزلٹ دینے کی بجائے انکے والدین کو ای میل یا وٹس ایپ کے ذریعے رزلٹ بجھوا دینا چاہئیے ۔نتیجہ جیسا بھی ہو والدین کو بچوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیئے۔

 

کیا بچوں پر پڑھائی کا دباؤ صرف والدین کی جانب سے ہوتا ہے؟

اسی حوالے سے وی نیوز نے یونیورسٹی کے چند طالب علموں سے گفتگو کی ، طاہرہ عالم جو بی ایس کی طالبہ ہیں ان کا کہنا تھا کہ ہم یہ نہیں کہ سکتے کہ صرف والدین کی طرف سے دباؤ ہوتا ہے کبھی کبھی رشتہ داروں کے ان گنت سوال اور اپنے بچوں سے ہمارا موازنہ کرنا بھی ہمیں مینٹلی ڈسٹرب کر دیتا ہے، والدین اگر منہ سے کچھ نہ بھی بولیں پھر بھی ان کے چہروں پر آئی مایوسی سب بتا دیتی ہے۔

اسی حوالے سے اویس خان جو کہ ایم ایس کے طالب علم ہیں کا کہنا تھا کہ میں اب اس سٹیج پر ہوں جہاں اچھے نمبر لانا اس لیے ضروری ہے کیوںکہ جاب مارکیٹ میں مقابلہ بہت زیادہ ہے ، والدین کی جانب سے پریشر نہیں ہے لیکن بے روزگاری کا خوف اور مستقبل میں ناکامی کی وجہ سے معاشرے کی باتیں سننے کا حوصلہ کہاں سے لائیں۔

طالب علموں کا کہنا تھا کہ یہ بات درست نہیں ہے کہ اس طرح کے واقعات کے ذمہ دار صرف والدین ہیں بلکہ رشتہ دار، معاشرہ اور اساتذہ برابر کے شریک ہیں۔امتحانات میں اچھے نمبرز لینا، اپنے ہمسایوں، رشتہ داروں اور دوستوں کے بچوں کے مقابلے میں اچھی کارکردگی دِکھانے کو ضروری بنا دینے سے والدین اپنے بچوں کو شدید ذہنی دباؤ میں مبتلا کردیتے ہیں۔ امتحانات کے دوران اور نتیجہ آنے سے قبل کچھ طلبہ اور طالبات میں ذہنی تناؤ اور دباؤ اتنا زیادہ ہوجاتا ہے کہ بعض اوقات اس کا نتیجہ انتہائی خطرناک نکلتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp