چپک رہا ہے بدن پر لہو سے پیراہن

اتوار 21 مئی 2023
author image

صنوبر ناظر

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ٹَن۔۔ ٹَن ۔۔ ٹَن ۔۔۔  گھڑی کے گھنٹے کی آواز ہر شخص کے دل پر گھونسے کی طرح لگ رہی تھی۔ ایک ایک لمحہ جیسے صدیوں پر محیط ہو گیا تھا۔ غوث بھائی عرف مُنے بھائی کے گھر کے سب سے بڑے کمرے میں سمجھو پورا محلہ سہما اور سراسیما موجود تھا کہ اگلے لمحے نا جانے کیا خبر آجائے۔

محلے بھر کے چہیتے منے بھائی دفتر سے روز شام 6 یا 7 بجے تک گھر پہنچ جایا کرتے تھے اور آج رات کے تقریباً 11 بجنے کو آئے تھے اور دور دور تک اُن کا کوئی اتا پتا نہ تھا۔ منے بھائی کی عمر رسیدہ اماں مسلسل بین کیے جارہی تھیں۔

انُ کی اماں شاید بھانپ گئیں تھیں کہ آنے والا وقت کوئی اندوہناک خبر لانے والا  ہے، کیونکہ ان دنوں کراچی روشنیوں کا وہ شہر نہیں رہا تھا جہاں بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے، مختلف مذاہب کے ماننے اور مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے بلا خوف و خطر مل جُل کر رہتے تھے ۔

یہ 30 مئی 1989ء کا کراچی ہے جہاں پچھلے کئی سال سے آسیب کا سایہ پڑ چکا تھا، سب کے مُنہ کو جیسے خون لگ گیا تھا اور سب ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو رہے تھے۔

کمرے میں موجود ہر شخص صرف منے بھائی کی خیریت سے واپسی کی دعا کر رہا تھا۔  24 سالہ منے بھائی کا تعلق ماڈل کالونی کے محلے کے اس خاندان سے تھا جو تقسیم کے وقت مدراس سے سیدھا یہاں آ بسا تھا۔

ان کا گھرانہ مالی طور پر کافی مستحکم تھا۔ اس وقت کسی گھر میں بڑے سائز کا رنگین ٹی وی، ریفریجریٹر اور فون ہونا بڑی بات سمجھا جاتا تھا۔

دوسری قابل ذکر بات یہ تھی کہ ہر کچھ عرصے بعد منے بھائی کے گھر ایک شاہانہ پارٹی کا اہتمام ہوتا  جو محلے بھر کے بچوں کے لیے بے حد خوشی کا موقع ہوتا تھا۔ اس پارٹی میں بہترین پکوان کے علاوہ وی سی آر پر یک بعد دیگر 3 انڈین فلمیں بھی دکھائی جاتیں یوں گویا پوری رات جشن کا سماں ہوتا۔

منے بھائی نو بہن بھائیوں میں آٹھویں نمبر پر تھے اس کے بعد بالکل ان کی ہی جیسی دھان پان سی، سروقد، سانولے رنگ روپ اور تیکھے نین نقش والی چھوٹی بہن منی باجی تھیں جنہیں ہم سب بچے ’ریکھا‘ کہتے تھے۔

منے بھائی سے اپنائیت اس لیے بھی تھی کہ وہ کمال کے ڈانسر تھے۔ سارے بچے حسرت اور خوشی کی ملی جلی کیفیت لیے دونوں بہن بھائی کو بولی ووڈ کے گانوں پر تھرکتے دیکھتے۔

مُنے بھائی کے اپنے گھر کی محفل کی تو بات ہی اور ہوتی لیکن محلے کی کسی بھی تقریب میں مُنے بھائی اور منی باجی کا ڈانس کرنا لازمی ہوتا۔

’ڈانس!‘ ۔۔ ہے نا اچھنبے کی بات؟

دراصل ضیاءالحق کا مذہب کارڈ، کلاشنکوف اور ہیروئن کلچر کی پنیریاں تو لگائی جا چکی تھیں تاہم انہیں تناور درخت بننے میں وقت درکار تھا۔

ہمارا  محلہ سندھی، پنجابی ، پشتو اور اردو بولنے والوں پر مشتمل تھا۔ جب کہ ایک کشمیری ڈاکٹر بھی اسی محلے میں رہتے اور اپنا کلینک کرتے تھے۔

وہ بھی کیا بے فکری کے دن تھے، کوئی نہیں جانتا تھا کہ کون کس فرقے سے تعلق رکھتا ہے اور نا جاننا چاہتا تھا کہ یہ سب فروعی باتیں سمجھی جاتی تھیں۔

ضیاء الحق کی آمریت میں جہاں کئی اور خرافات اس ملک پر مسلط کی گئیں وہیں 1984ء میں ایم کیو ایم کو بھی معرض وجود میں لایا گیا اور جلد ہی کراچی و حیدرآباد میں ان کا طوطی بولنے لگا۔ کچھ ہی عرصے بعد لسانی فسادات کو ہَوا دینے کے لیے  پی پی آئی( پنجابی پختون اتحاد) کو وجود بخشا گیا۔

تب دانستہ یہ احساس دلایا گیا  کہ آس پاس بسنے والے جو برسوں سے ایک ساتھ رہ رہے تھے دراصل ایک دوسرے سے کسی نہ کسی حوالے سے مختلف ہیں۔

دیکھتے ہی دیکھتے رویے بدلنے لگے۔ جن گھروں میں بنا دستک اور بے دھڑک آنا جانا معمول ہوا کرتا تھا اب وہاں جانے سے قدم خود بخود گریزاں ہونے  لگے۔

وہی گھروں کے آگے بنے چبوترے اور لان جہاں محلے والے نشست جمایا کرتے تھے اب ویران رہنے لگے تھے۔سڑکوں اور گلیوں نے سرحدوں کے روپ دھار لیے تھے۔

محلے کے بزرگ جو پہلے ہی 47ء اور 71ء کی تقسیم اور ہجرت کے زخم خوردہ تھے، دلوں کی اس تقسیم پر ہراساں تھے۔ آئے روز بے گناہ  افراد کا کسی نہ کسی پارٹی کے ہاتھوں مارا جانا معمول بن چکا تھا۔

کرفیو لگنا ایک عام سی بات ہو گئی تھی۔ فوجیوں سے بھرے ٹرک دن رات علاقے میں دندناتے پھرتے اس کے باوجود اموات بھی بڑھتی جارہی تھیں اورعقوبت خانے بھی۔

رات کے اندھیرے میں تمام پارٹیوں کو اسلحہ کی منصفانہ ترسیل کی جاتی تھی، حتیٰ کہ لاشوں کے زخم دیکھ کر اندازہ لگایا جاتا تھا کہ مارنے والے کس قومیت سے تعلق رکھتے تھے۔

ہر پارٹی کے غنڈوں نے عقوبت خانوں میں ٹارچر کرنے کے مختلف اوزار ذخیرہ کر رکھے تھے۔رات گھروں سے نکلنا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا، اسی لیے سب سرِ شام  اپنے گھروں میں محصور ہو جاتے۔

مُنے بھائی کو کئی بار گھر جلدی پہنچنے کی تنبیہ کی گئی تھی اور ’پی پی آئی‘ والے علاقے سے گزر کر آنے سے اجتناب برتنے کا بھی کہا گیا تھا، لیکن سدا کے شریف مُنے بھائی ہمیشہ کِھلکِھلا کر ہنستے ہوئے گویا ہوتے ’بھئی ہماری کسی سے کیا دشمنی جو ہماری ننھی سی جان لے گا‘۔

لیکن رات کے اس پہر سب کو یقین ہو چلا تھا کہ مُنے بھائی بھی اس خونی دور کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں کیونکہ صرف دو دن پہلے ہی برسوں سے ہمارے گھروں میں دودھ دینے والے گوالے کی جان صرف اس لیے لے لی گئی تھی کہ وہ پنجابی بولتا تھا، ایسے میں حساب تو برابر کرنا تھا۔

سارا محلہ رات بھر مُنے بھائی کے گھر پر صبح ہونے کا انتظار کرتا رہا۔ روشنی کی پہلی کرن پڑتے ہی  محلے کے چند بزرگ افراد پی پی آئی کے علاقے میں داخل ہوئے جو سڑک کے دوسری جانب تھا۔ کسی خدا ترس آدمی نے بتایا کہ آگے گراؤنڈ میں ایک مٹی میں اٹی ایک فربہ لاش پڑی ہے۔

مُنے بھائی چونکہ دھان پان سے تھے تو سب کو ایک گوناگوں سا اطمینان ہوا کہ شاید یہ کوئی اور بدقسمت ہوگا۔

لاش پھول چکی تھی اور جسم پر جابجا سگریٹ داغنے کے نشانات تھے۔ گردن کے گرد ایک رسی بندھی تھی جس کو غالباً گاڑی سے باندھ کر روح پرواز ہونے تک گھسیٹا گیا تھا۔ گھسیٹنے سے کمر پر کھال نام کی کوئی شے نہیں بچی تھی۔ چہرہ کیچڑ سے لت پت تھا لیکن منے بھائی کی حال ہی میں ہونے والی منگنی کی انگوٹھی انگلی کے گوشت میں پیوست ہو چکی تھی۔ یہ واقعہ میری بچپن کی تلخ یادوں میں محفوظ ہے۔

حالیہ واقعات میں پی ٹی آئی کے فاشزم کو دیکھ کر مجھے 1980-90ء کی دہائی کی ایم کیو ایم کا دور یاد آگیا، جس نے لوگوں کے دلوں میں گنجائش ختم کر دی تھی۔ لوگوں میں جان بوجھ کر نفرتوں کے ایسے بیج بو دیے تھے کہ وہ باہم دشمن ہو گئے تھے لیکن نتیجہ کیا نکلا ؟

آج پھر وہی کھیل دوبارہ کھیلا جارہا ہے۔ کل نقصان دو چار شہروں تک محدود تھا لیکن اس بار خسارہ پورے ملک اور اس کے عوام  کا ہوگا اور مقدس  گائے کے آرام میں کوئی خلل نہیں آئے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

صنوبر ناظر ایک متحرک سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔ تاریخ میں ماسٹرز کر رکھا ہے جبکہ خواتین کی فلاح اور مختلف تعلیمی پراجیکٹس پر کام کر چکی ہیں۔ کئی برس سے قومی و بین الاقوامی میڈیا اداروں کے لیے باقاعدگی سے لکھتی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp