سینیئر سیاستدان محمد زبیر عمر نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت ایسی حکمتِ عملی پر چل رہی ہے جو سابق وزیراعظم نواز شریف کے نظریات سے مطابقت نہیں رکھتی۔ ان کے مطابق نواز شریف مجبوری کے تحت حکومت کا ساتھ دے رہے ہیں کیونکہ وہ مریم نواز کو وزیرِاعظم دیکھنے کے خواہش مند ہیں۔
وی نیوز کے پروگرام سیاست اور صحافت میں گفتگو کرتے ہوئے زبیر عمر نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) نے انتخابات سے بہت پہلے فیصلہ کر لیا تھا کہ ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ اب نہیں اٹھایا جائے گا، اور یہ نعرہ پورے انتخابی عمل کے دوران غیر حاضر رہا۔
یہ بھی پڑھیں:فتح افغانستان کے بعد پاکستان کی اگلی طویل جنگ
ان کا کہنا تھا کہ قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان کے لیے ایک جمہوری اور پارلیمانی نظام کا تصور پیش کیا تھا جہاں سیاسی اپوزیشن کا کردار، عدلیہ کی آزادی اور میڈیا کی خودمختاری بنیادی ستون ہیں۔ لیکن پاکستان میں ریاستی سیکیورٹی کے نام پر جمہوری عمل کو بارہا روکا گیا۔
انہوں نے کہا کہ چاہے 1954 میں ایوب خان کی توسیع ہو یا 2019 میں جنرل باجوہ کی، ہر بار ملک کی سیکیورٹی کو جواز بنایا گیا، لیکن سوال یہ ہے کہ ان توسیعات سے آیا پاکستان کی سیکیورٹی بہتر ہوئی؟
ملک میں صحت کے شعبے سے لے کر معیشت تک ہر شعبہ مشکلات سے دوچار ہے۔ پاکستان دنیا میں کئی بیماریوں کا مرکز بن چکا ہے، چاہے وہ پولیو ہو یا ذیابیطس۔
محمد زبیر نے کہا کہ جب جمہوریت کے تقاضے پورے نہ کیے جائیں تو نظام کمزور ہوتا ہے، اور ماضی میں حکومتوں پر قبضے کے فیصلے چاہے ایوب، ضیا یا مشرف نے کیے، ملک کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں:ہائبرڈ نظام کھل کر معیشت کی بہتری اور کرپشن کے خاتمے کے لیے کام کرے، سینیئر صحافی ابصار عالم
انہوں نے سابق آرمی چیفس، بشمول جنرل کیانی اور جنرل باجوہ کو دی گئی توسیعات پر بھی تنقید کی اور کہا کہ ان فیصلوں سے نہ تو سیکیورٹی بہتر ہوئی اور نہ ہی معیشت۔
آج اتحاد کے نام پر جو بیانیہ پیش کیا جا رہا ہے، اس کا مطلب جمہوریت کو قربان کرنا ہے۔
اپوزیشن اتحاد کے حوالے سے بات کرتے ہوئے زبیر عمر نے وضاحت کی کہ انہوں نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار نہیں کی بلکہ وہ تحفظ آئین پاکستان کے نام سے قائم اپوزیشن اتحاد کا حصہ ہیں جس کی قیادت محمود خان اچکزئی کے پاس ہے اور جس میں پی ٹی آئی، اسفند یار ولی اور اسد قیصر سمیت دیگر رہنما شامل ہیں۔
افغان پالیسی کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان نے گزشتہ 2 دہائیوں میں غلط پالیسیوں کی بھاری قیمت ادا کی ہے۔ ہمیں 15 سال بتایا گیا کہ اشرف غنی بھارت نواز ہیں، مگر طالبان کے دور میں بھی ہمیں مشکلات کا سامنا ہے۔
ان کے مطابق پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کو بھارت کے زاویے سے دیکھا جس کا نقصان ملک کو اٹھانا پڑا۔
امریکا کے کہنے پر لڑی جانے والی جنگ ہو یا قبائلی علاقوں میں طالبان سے معاہدے، یہ پالیسیاں دیرپا ثابت نہ ہو سکیں۔
یہ بھی پڑھیں:افغانستان سے کشیدگی کا ذمہ دار کون؟ پاکستان کا سخت مؤقف اور طالبان کی خوش فہمی
معیشت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے زبیر عمر نے کہا کہ ملک میں غربت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ گزشتہ 3 سال میں 2 کروڑ افراد غربت کی لکیر سے نیچے گئے، بے روزگاری 8 سے بڑھ کر 24 فیصد ہو گئی جبکہ نوجوانوں میں یہ شرح 37 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ چاہے موڈیز نے بینکوں کی ریٹنگ بہتر کر دی ہو، عوام کی حالت بدستور خراب ہے۔ اگر معیشت واقعی بہتر سمت میں جا رہی ہے تو 2 برس بعد اس کے اثرات عام آدمی تک پہنچنے چاہییں۔
محمد زبیر عمر نے 26ویں اور 27ویں ترمیم پر بھی کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ ترامیم رات کی تاریکی میں کی جاتی ہیں، عوامی مشاورت کے بغیر، اور ماضی میں مارشل لا ادوار میں بنائے گئے تمام ماڈلز ناکام ثابت ہوئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کو دوبارہ جمہوریت کو مستحکم کرنے، اداروں کو غیر سیاسی بنانے اور عوامی نمائندوں کو بااختیار کرنے کی ضرورت ہے، ورنہ بار بار کیے جانے والے تجربات کا خمیازہ ہر بار عوام ہی کو بھگتنا پڑے گا۔













