بلوچستان کی سیاسی فضا ایک بار پھر شدید ہلچل کا شکار ہوگئی ہے جہاں وزیراعلیٰ میر سرفراز بگٹی کی ممکنہ تبدیلی کے حوالے سے مختلف سیاسی رہنماؤں کے بیانات نے غیر یقینی کی کیفیت کو مزید بڑھا دیا ہے۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے اہم رہنماؤں کی جانب سے آنے والے مختلف بیانات نے سیاسی منظرنامے کو گرما دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پیپلز پارٹی کے اندرونی اختلافات ختم کرنے کی کوششیں تیز، وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی مدت مکمل کرسکیں گے؟
نجی ٹی وی سے گفتگو کے دوران مسلم لیگ ن کے سینیٹر میر دوستین ڈومکی سے سوال کیا گیا کہ کیا وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ ہوچکا ہے؟
جواب میں دوستین ڈومکی نے کہا کہ اگر میں نے کوئی بات کی ہے تو اس میں کوئی وزننے تو ہوگا۔ سرفراز بگٹی نے مارچ 2024 سے کرسی سنبھالی ہے، صوبے کے حالات پہلے اتنے خراب نہیں تھے جتنے اب ہیں۔

انہوں نے کہا کہ صوبے میں گڈ گورننس نہیں ہے، کرپشن عروج پر ہے، سرفراز بگٹی کو ہٹانے کا فیصلہ ہوچکا ہے، یہ بات میں 100 فیصد درست کہہ رہا ہوں۔ وہ مانیں یا نہ مانیں، یہ فیصلہ ہوچکا ہے، پیپلز پارٹی کی قیادت ہی ان کو تبدیل کر رہی ہے، ان ہاؤس تبدیلی لائی جارہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ صوبے کے وزیراعلیٰ کے حوالے سے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان اڑھائی، اڑھائی سال کا معاہدہ ہے۔ پیپلز پارٹی کا ایک سال رہتا ہے، ابھی پیپلز پارٹی سے ہی نیا وزیراعلیٰ آئے گا۔
یہ بھی پڑھیں: سرفراز بگٹی وزیراعلیٰ بلوچستان کب تک، پی پی اور ن لیگ کا پاور شیئرنگ فارمولا کیا ہے؟
میر دوستین ڈومکی نے کہا کہ نیا وزیراعلیٰ صوبے میں گڈ گورننس بھی لائے گا اور صوبے کے خراب حالات کو بھی سنبھالے گا۔ جب سے سرفراز بگٹی وزیراعلیٰ بنے، ان کو ہر طرف سے مدد حاصل تھی، اس کے باوجود وہ ناکام رہے۔ نئے وزیراعلیٰ کے نام کے حوالے سے پیپلز پارٹی فیصلہ کرے گی۔
‘وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی کی تبدیلی کا خواب محض ایک خواب ہی رہے گا’
سینیٹر ڈومکی کے ان بیانات پر پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما اور رکن صوبائی اسمبلی علی مدد جتک نے سخت ردعمل میں کہا کہ بلوچستان میں امن و امان، ترقی اور خوشحالی کے لیے موجودہ حکومت سنجیدہ اقدامات اٹھا رہی ہے، وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی کی تبدیلی کا خواب محض ایک خواب ہی رہے گا۔
علی مدد جتک کے مطابق صدر آصف علی زرداری اور چیئرمین بلاول بھٹو زرداری وزیراعلیٰ بلوچستان پر مکمل اعتماد رکھتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی وی بورڈ میں بلوچستان کی نمائندگی نہ ہونے پر وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی برہم، عطا تارڑ نے وضاحت کردی
انہوں نے مزید کہا کہ وزیراعلیٰ میر سرفراز بگٹی اتحادی جماعتوں کو ساتھ لے کر صوبے کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے بھرپور اقدامات کر رہے ہیں اور وزیراعظم سمیت مسلم لیگ ن کی مرکزی قیادت بھی ان پر مکمل اعتماد کا اظہار کرچکی ہے۔
ان کے مطابق تبدیلی کی باتیں صرف سیاسی پوائنٹ اسکورنگ ہیں جبکہ موجودہ حکومت نہ صرف امن دشمن عناصر کے خلاف کارروائیاں کر رہی ہے بلکہ ترقی اور خوشحالی کے منصوبوں پر بھی کام جاری رکھے ہوئے ہے۔
’پارٹی کے زیادہ تر ارکان وزیراعلیٰ کی تبدیلی چاہتے ہیں‘
دوسری جانب پیپلز پارٹی کے ایم پی اے اور پارلیمانی سیکریٹری لیاقت لہڑی نے وی نیوز سے گفتگو میں مختلف مؤقف اختیار کیا اور کہا کہ پارٹی کے زیادہ تر ارکان وزیراعلیٰ کی تبدیلی چاہتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی کوشش ہوگی کہ نیا اور مثبت چہرہ سامنے لایا جائے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے ایسا وزیراعلیٰ ضروری ہے جو صوبے کے مسائل سے بخوبی واقف ہو اور ان کے حل کے لیے فعال کوشش کرے۔

انہوں نے کہا کہ ہم تمام دوست مل کر اس پر مشاورت کر رہے ہیں کہ صوبے کی خراب صورتحال کنٹرول کرنے کے لیے کون سا رہنما موزوں ہوگا۔
لیاقت لہڑی کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ نے پارٹی قیادت کو جو صورتحال بتائی تھی وہ زمینی حقائق سے مختلف ہے، اسی لیے ارکان نے اصل حقائق قیادت کے سامنے رکھ دیے ہیں۔ پارٹی کی مرکزی قیادت جو بھی فیصلہ کرے گی، وہ اسے من و عن تسلیم کریں گے کیونکہ مقصد صرف بلوچستان اور اس کے عوام کا مفاد ہے۔
بلوچستان میں وزیراعلیٰ کی ممکنہ تبدیلی کے حوالے سے سامنے آنے والے ان متضاد بیانات نے سیاسی درجہ حرارت کو مزید بڑھا دیا ہے۔ ایک جانب تبدیلی کی جدوجہد کے دعوے کیے جا رہے ہیں تو دوسری جانب وزیراعلیٰ پر مکمل اعتماد کی یقین دہانی کرائی جا رہی ہے۔ اگلے چند روز بلوچستان کی سیاست میں اہم تبدیلیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتے ہیں۔














