ایرانی انقلاب آیا تو کسی بھی انقلاب کی طرح چنگھاڑتا آیا۔ ہر انقلاب کی طرح اس نے بھی انہیں روند ڈالا جن کے کرتوت اس کے وجود کے ذمہ دار تھے۔ انقلاب ایسا ہی ہوتا ہے۔ یہ کبھی صدیوں تو کبھی عشروں کی گھٹن کا نتیجہ ہوتا ہے۔ سو جب طویل بے بسی اچانک کچھ وقت کے لیے ایک طرح کی قادر مطلق بن جاتی ہے، تو سب سے پہلے انصاف والی عینک توڑ ڈالتی ہے۔ یہ بے رحم طاقت وہ سب کرتی ہے جس کا جزو جزو لاقانونیت سے عبارت ہوتا ہے۔ قابل قبول ہی نہیں قابل فخر لاقانونیت۔ اس کے افتخار کی وجہ وہ طویل ناانصافیاں ہوتی ہیں جن سے پورا سماج مدتوں گزرا ہوتا ہے۔ یوں یہ طویل ناانصافیاں محدود مدت کی اس بڑی ناانصافی کا جواز بن جاتی ہیں جسے انقلاب کہا جاتا ہے۔ سو ہر انقلاب کا ماٹو ہوتا ہے ۔۔۔’مار دو، لٹکا دو، کچل دو‘۔
انقلاب کی ایک خاصیت اور بھی ہے۔ یہ اپنے جغرافیے پر قناعت نہیں کر پاتا۔ سب کچھ رونڈ ڈالنے کا نشہ ہی کچھ ایسا ہوتا ہے کہ اپنے جغرافیے پر کنٹرول پاتے ہی، انقلابی پوری دنیا کو روند ڈالنا چاہتے ہیں۔ یہ فرانس، روس اور کیوبا سمیت ہر جگہ ہوا۔ فرانس انقلاب سے قبل بھی توسیع پسند ملک تھا۔ مگر انقلاب کے بعد والے فرانس کو جب نپولین ملا تو اس نے فرانسیسی انقلاب کی اصلاحات اٹلی، جرمنی، ہالینڈ اور پولینڈ سمیت ہر اس جگہ پہنچائیں جہاں وہ اپنے لشکر سمیت پہنچا۔
یہ بھی پڑھیں:آنے والے زمانوں کے قائد ملت اسلامیہ
ممکن ہے کوئی سوچے کے نپولین تو لینن یا کاسترو کی طرح خود انقلابی نہ تھا۔ نہ ہی اس نے انقلاب کا علم اٹھایا۔ سو اسے سمجھنا ضروری ہے کیونکہ یہی چیز فرانسیسی انقلاب کو دیگر انقلابوں سے منفرد بناتی ہے۔ فرانسیسی انقلاب نے سب کچھ روند تو ڈالا تھا مگر انقلابی خود طویل حکمرانی نہیں کر پائے تھے۔ اقتدار کا ایک خلا پیدا ہوگیا تھا جسے فوراً ہی نپولین نے آکر پُر کیا۔ اس نے انقلاب کا علم اٹھایا نہ ہی خود کو انقلاب کا وارث قرار دیا۔ لیکن اصلاحات ساری وہ لایا جن کے لیے انقلاب برپا ہوا تھا۔ یوں فرانسیسی انقلاب کے نتائج انقلابیوں کی طویل حکمرانی کی بجائے ’اداروں کی تشکیل‘ کی صورت میں نکلے جو صدیوں بعد آج بھی موجود ہیں۔ جب انقلابی طویل عرصہ حاکم رہ جائیں تو 2 سے 3 نسل بعد یہ خود بھی ایک بڑی گھٹن بن جاتے ہیں۔ فرانس میں انقلابی گھٹن بننے کے لیے موجود نہیں رہ پائے تھے۔
اس کے برخلاف روس میں انقلابی موجود بھی رہے اور انقلاب ایکسپورٹ کرنے کا ایجنڈا بھی ان کی جیب میں رہا۔ لیکن گھٹن انہیں لے ڈوبی۔ فیدل کاسترو سے متعلق گمان کیا جاتا ہے کہ وہ توسیع پسند نہ تھا۔ ایسا اس لیے سوچا جاتا ہے کہ اس کی فوج نے کسی ملک کو نہیں روندا۔ مگر وجہ نظر انداز کر دی جاتی ہے۔ یہ جزیرہ نما ملک ایک بڑی نیوی کے بغیر کسی کو کیسے روندتا؟ دنیا کی سب سے بڑی نیوی کے گھر سے محض 150 کلومیٹر کے فاصلے پر کاسترو نیوی بنا سکتا تھا؟ سو کاسترو کے لیے اتنا ہی ممکن تھا کہ وہ اڑوس پڑوس کے پلاسٹکی انقلابیوں کی مدد کرتا، اور یہ کام کاسترو نے لاطینی امریکا اور افریقہ دونوں جگہ کیا۔ مگر ہر جگہ ناکامی ہوئی۔
واحد چائنیز انقلاب ہے جو اپنے جغرافیے پر قانع بھی ہے اور انقلابیوں کی طویل موجودگی کے باوجود وہاں گھٹن نے بھی جنم نہیں لیا۔ چائنیز انقلاب ایکسپورٹ اس لیے نہ ہوا کہ یہ چائنیز مزاج نہیں۔ توسیع پسندی ان کی پوری تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس کے برعکس انہوں نے دیوار چین جیسا عجوبہ کھڑا کرکے گویا پوری دنیا سے کہہ دیا تھا:
’نہ تو ہم آپ کو روندیں گے، نہ ہی آپ کو روندنے کی اجازت دیں گے‘
یہ بھی پڑھیں:ٹرمپ کا کامیڈی تھیٹر
مگر اس کے باوجود وہ روندے گئے، مغرب کے 17 ممالک نے انہیں ایک صدی سے زیادہ محکوم رکھا۔ وہ صدی جسے خود چائنیز نے ’ذلت کی صدی‘ کا ٹائٹل دے رکھا ہے۔ 1839 تا 1949 کی صدی چائنیز بھولنے کو کسی صورت تیار نہیں۔ اور یہ وہ پہلی چیز ہے جس نے انقلابیوں کو قابل قبول بنا رکھا ہے۔ مگر 2 چیزیں اور بھی اہم ہیں۔ پہلی یہ کہ ڈینگ ژیاؤ پنگ کے دور سے وہ مسلسل حالت ترقی میں ہیں۔ ایسی محیر العقول ترقی کہ جدید مغرب بھی اس کی برق رفتاری کے آگے ایسا مبہوت ہوا کہ روکنے کی سبیل ہی نہ کر پایا۔
دوسری چیز یہ کہ چائنیز انقلابیوں نے اپنے نظریے کو کبھی منجمد نہ ہونے دیا۔ اسے مسلسل اصلاحات سے گزارا۔ اور یہ اصلاحات اب بھی حسب ضرورت ہوتی ہیں۔ چنانچہ آپ چائنیز دانشوروں یا ٹی وی اینکرز سے کبھی بھی اپنے نظام کے لیے صرف کمیونزم لفظ نہیں سنیں گے۔ وہ ہمیشہ “Communism with Chinese Characteristics” کہتے ہیں یعنی چائنیز خصوصیات والا کمیونزم۔
لگے ہاتھوں ذرا اس کی ایک جھلک بھی دیکھ لیجیے کہ چائنیز خصوصیات سے کیا مراد ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ کمیونزم کا معاشی تصور مغرب کے کیپٹلزم سے مکمل متصادم ہے۔ لیکن چین میں کمیونزم کے باوجود فری مارکیٹ اکانومی پوری کامیابی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ مگر یہاں بھی دیوار چین جیسا ہی عجوبہ دیکھیے۔ فری مارکیٹ اکانومی جس کیپٹلزم کی ایکسٹیشن ہے اس کا سب سے بڑا تعارف یہ ہے کہ یہ امیر کو امیرتر اور غریب کو غریب تر بنانے والا نظام ہے۔ لیکن آپ چائنیز کا کمال دیکھیے کہ فری مارکیٹ اکانومی اختیار کی تو ساتھ ہی یہ اصول بنا دیا کہ کارخانے کا مالک جس شرح سے مالی ترقی کرے گا اسی شرح سے اس کے کارخانے کے ملازمین نے ترقی نہ کی تو سیٹھ جیل جائے گا، اور کارخانہ بند ہوگا۔
نتیجہ یہ ہے کہ ڈیڑھ ارب آبادی والے چین میں ایک بھی انسان بے گھر نہیں جبکہ 35 کروڑ آبادی والے امریکا میں ڈیڑھ لاکھ تو صرف بچے بے گھر ہیں۔ یوں چائنا کے انقلابی اس شان سے موجود ہیں کہ انہوں نے پوری قوم کو ذلت کی صدی سے عظمت کی اس صدی کی دہلیز تک پہنچا دیا ہے جہاں دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور ہونے کا احساس اس قوم کے ہر فرد کا فخر بننے کو ہے۔
یہ بھی پڑھیں:چھوٹا پیک، بڑا پیک اور سی پیک
بات ایران کے انقلاب سے شروع ہوئی تھی۔ اور وہی پیش نظر بھی ہے۔ مگر یہ پس منظر دینا ضروری تھا تاکہ بات کوڑھ مغز بھی سمجھ پائیں۔ ایرانی انقلاب نے بھی مستحکم ہوتے ہی ’ایکسپورٹ پالیسی‘ اپنا لی تھی۔ اور وہ بھی پوری بے رحمی کے ساتھ۔ خود ہم بھی اس پالیسی کے شر سے نہ بچ پائے۔ موقع گڑھے مردے اکھاڑنے کا نہیں، سو اس کی تفصیل سے گریز میں خیر ہے۔ اس پالیسی نے ایران کو ’تنہائی کے 40 برس‘ کے سوا کچھ نہ دیا۔ امریکی پابندیوں کے سبب ان 40 برسوں میں ترقی کا سفر شروع ہی نہ ہوسکا۔ یوں ترقی کے ثمرات دیکھنے کی غرض سے ایران جانے والوں کو محض مقدس مقامات کی زیارتوں پر انحصار کرنا پڑا۔ وہ زیارت جو انقلابیوں کی آمد سے قبل بھی صدیوں سے جاری تھی۔ جب کروڑوں شہری مشکلات سے دوچار ہوں تو آپ انہیں یہ چورن زیادہ عرصہ نہیں بیچ سکتے کہ دیکھا! ہم نے دنیا کو کو کس طرح للکار رکھا ہے؟ پیٹ للکار نہیں روٹی سے بھرتا ہے اور اچھی روٹی کے لیے ترقی ناگزیر ہے۔ نتیجہ یہ کہ گھٹن پیدا ہوگئی۔ ایکسپورٹ والے چارٹ پر بھی آج کی تاریخ میں یہی درج ہے کہ یمن تو ابھی پوری طرح پایا نہیں لیکن شام کھو دیا۔
اچھی بات یہ ہوئی کہ انقلابیوں کو احساس ہوگیا کہ محض ولایت فقیہہ سے کام نہیں چلنے والا، گھٹن ختم کرنی ہوگی۔ انہوں نے چپکے سے چینیوں کے کان میں سرگوشی کر دی کہ عرب دنیا سے صلح کرایے۔ اس سرگوشی پر انقلابیوں کو جتنی داد دی جائے کم ہے۔ چینیوں نے صلح کرا دی۔ اور عربوں نے ایران کی اس نئی سوچ میں ایک قدم کے بدلے دو قدم بڑھنے کی حکمت عملی اختیار کرلی۔ صرف عرب ممالک ہی نہیں پاکستان کے لیے بھی ان کی سوچ میں واضح تبدیلی رواں سال مئی کی جنگ کے دوران واضح طور پر سامنے آئی۔ انقلاب کے بعد سے مسلسل انڈیا کے پارٹنر رہنے والے ایرانیوں نے انڈیا کا ساتھ دینے کی بجائے ثالثی آفر کر دی۔ جس نے انڈیا کے اوسان ایسے خطا کیے کہ انڈین ٹی وی اینکرز نے زبانوں سے کتے باندھ لیے۔ جو رہی سہی کسر تھی وہ جون کی ایران اسرائیل جنگ نے پوری کر دی۔ جس کے دوران پاکستان نے ایسا بے مثال کردار ادا کیا کہ ایران کی ٹاپ سیاسی شخصیات کی جانب سے لمحہ موجود تک اظہار تشکر جاری ہے۔
مگر لگ ایسا رہا ہے کہ ایران سے باہر کے شیعہ اب تک اس تبدیلی کا پورا شعور حاصل نہیں کر پائے جس کا آغاز مارچ 2023 میں بیجنگ سے ہوا تھا۔ مثلاً ستمبر میں پاکستان اور سعودی عرب کے مابین ہونے والے دفاعی معاہدے کے حوالے سے ایک شامی تجزیہ کار سے سوال ہوا: ’آپ کے خیال میں یہ معاہدہ اسرائیل کی جارحانہ حکمت عملی پر کیا اثرات مرتب کرے گا ؟‘
تو تجزیہ کار نے جواب دیا:’مجھے نہیں لگتا کہ یہ معاہدہ اسرائیل کے خلاف ہوا ہے۔ مجھے یہ ایران کے خلاف لگتا ہے‘۔
جبکہ حقیقت یہ تھی کہ معاہدہ کرنے والے دستخطوں سے قبل ہی ایران کو اعتماد میں لے چکے تھے۔ اور ایرانی سو فیصد مطمئن تھے۔ صرف یہی نہیں بلکہ حال ہی میں ایران نے تجویز پیش کی ہے کہ اس معاہدے کا اسے بھی حصہ بنا لیا جائے۔
یہ بھی پڑھیں:خالصتان تحریک اور مودی کا خوف
یہی صورتحال ہمارے ہاں بھی نظر آرہی ہے۔ ہمارے ہاں کے بہت سے اہل تشیع بھی اب تک مارچ 2023 سے قبل والے دور میں جی رہے ہیں۔ چند روز قبل اردن کے شاہ عبداللہ نے پاکستان کا دورہ کیا تو اس پر ان کا ردعمل احمقانہ سے بھی نچلی سطح کی چیز تھا۔ انہیں لگا اس دورے کا ضرور ایران ہی سے کچھ لینا دینا ہوگا۔ ارے بھئی خود ایرانیوں سے ہی پوچھ لیجیے کہ کیا انہیں بھی یہی لگتا ہے؟ کچھ اہل تشیع کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ عین سنی اہل مذہب کی طرح ہی جیوپولیٹکل ایشوز کو مذہب کی عینک سے دیکھتے ہیں۔ اور یہ چیز سنی و شیعہ دونوں ہی طرف کے اہل مذہب کو گمراہ کرتی آئی ہے۔ مثلاً شام پر القاعدہ دہشتگردوں کے قبضے کو ہمارے سنی اہل مذہب نے ’اسلام کی فتح مبین‘ سمجھا یا نہیں؟ لیکن نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ ان کا فاتحِ دمشق، وائٹ ہاؤس میں ڈونلڈ ٹرمپ کی بغل میں جا کھڑا ہوا۔ ہمارے سنیوں کو یہ دھوکہ کیوں کھانا پڑا ؟ کیونکہ جیو پولیٹکل بلکہ جیو اسٹریٹیجک ایشو کو مذہب کی عینک سے دیکھا گیا۔
سو ہماری اپنے شیعہ بھائیوں سے درخواست ہے کہ خود کو ایران کی چال سے ہم آہنگ کر لیجیے اور معاملات کے جائزے کے لیے درست عینک کے استعمال کی عادت ڈال لیجیے۔ ورنہ آپ اتنے پیچھے رہ جائیں گے کہ خود ایرانی بھی آپ کو نہ ڈھونڈ پائیں گے۔ ایرانی قیادت اب اندرونی گھٹن ختم کرنے کی راہ پر ہے، جس کے لیے اسے نئے تجارتی راستے اور نئے امکانات درکار ہیں۔ اور وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس کے لیے پڑوسیوں سے دوستانہ تعلقات اولین سیاسی تقاضا ہے۔ سو وہ اس تقاضے کو پورا کر چکے۔ اور اس سے ریورس ہونے کا ان کا کوئی ارادہ نہیں۔ پرانا انقلاب نئی کروٹ لے چکا، آپ بھی کروٹ بدل لیجیے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔













