آڈیو لیکس تحقیقات کے لیے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں قائم 3 رکنی جوڈیشل کمیشن نے باضابطہ کارروائی کا آغاز کر دیا ہے۔ کمیشن میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق اور چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ نعیم اختر افغان بھی شامل ہیں۔ سپریم کورٹ کے کمرہ عدالت نمبر 7 میں اٹارنی جنرل نے کمیشن کے ٹی او آرز پڑھ کر سنائے۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ فون نمبرز اور ای میل پبلک کیے جائیں تاکہ کوئی بھی شخص کمیشن کو معلومات دینا چاہے تو دے سکے، کمیشن کی تمام کارروائی بھی پبلک کی جائے۔ کمیشن نے حکم دیا کہ تمام آڈیوز اور ان کے مصدقہ ٹرانسکرپٹ کی 4 کاپیاں 24مئی تک جمع کرائی جائیں، آڈیوز سے متعلقہ تمام افراد کے بیان ریکارڈ کیے جائیں گے، اگر کوئی فریق نوٹس وصول نہ کرے تو نوٹس اس کے گھر کے باہر چسپاں کر دیا جائے۔ آئندہ کارروائی 27 مئی دن 10 بجے ہوگی۔
ہم نے صرف حقائق تلاش کرنے ہیں کسی کے خلاف کارروائی نہیں کرنی: جسٹس قاضی فائز عیسٰی
کارروائی شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے جوڈیشل کمیشن کے ٹی او آرز پڑھ کر سنائے۔ کمیشن نے باقاعدہ کارروائی سے قبل اشتہار جاری کرنے کی ہدایت کی اور وفاقی حکومت کو خط و کتابت کے لیے نئے سم کارڈز اور اینڈروئیڈ موبائل فون فراہم کرنے کا حکم بھی دیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ فون نمبرز اور ای میل پبلک کیے جائیں تاکہ کوئی بھی شخص کمیشن کو معلومات دینا چاہے تو دے سکے، کمیشن کی کارروائی فوجداری ہے نہ ہی یہ سپریم جوڈیشل کونسل ہے۔ تمام فریقین کیساتھ باعزت رویہ اختیار کیا جائے، ہم نے صرف حقائق تلاش کرنے ہیں کسی کے خلاف کارروائی نہیں کرنی۔
کمیشن نے وفاقی حکومت سے مکمل آڈیوز اور ٹرانسکرپٹ طلب کر لیا۔ حکم دیا کہ جن لوگوں کی گفتگو آڈیوز میں ہے ان کا مکمل نام اور پتا بھی فراہم کیا جائے۔ وفاقی حکومت 24 مئی تک تمام تفصیلات جمع کروائے۔
آڈیو لیکس کی تصدیق کیسے ہوگی؟ جسٹس قاضی فائز عیسٰی
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کمیشن کس قانون کے تحت تشکیل دیا گیا ہے؟ اس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کمیشن انکوائری کمیشن ایکٹ 2016 کے تحت تشکیل دیا گیا ہے۔ کمیشن نے کارروائی پبلک کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کوئی حساس معاملہ سامنے آیا تو ان کیمرا کارروائی کی درخواست کا جائزہ لیں گے۔ کمیشن کی کارروائی سپریم کورٹ میں ہوگی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آڈیو لیکس انکوائری میں 2 بڑی عمر کی خواتین بھی شامل ہیں، اگر درخواست آئی تو کمیشن کارروائی کے لیے لاہور بھی جا سکتا ہے۔ جوڈیشل کمیشن نے اٹارنی جنرل کو آڈیوز کی تصدیق کے لیے متعلقہ ایجنسی کا تعین کرنے کی بھی ہدایت کی۔ جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے آڈیو لیکس کی تصدیق کیسے ہوگی؟ آڈیو لیکس کی تصدیق کے لیے پنجاب فرانزک سے رابطہ کیا جا سکتا ہے، اگر کوئی شخص کہے کہ آڈیو میں آواز ان کی نہیں، یا ٹیمپرڈ ہے تو اس کی تصدیق پہلے سے کرنا ہوگی۔
انکوائری کمیشن، سپریم جوڈیشل کونسل نہیں ہے: جسٹس قاضی فائز عیسٰی
جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ فرانزک ایجنسی کا ایک رکن کمیشن کی کارروائی میں موجود ہو تاکہ اگر کوئی شخص انکار کرے تو فوری تصدیق ہو سکے۔ کمیشن نے اٹارنی جنرل کو تمام متعلقہ افراد کو نوٹسز جاری کرنے اور ان کی فوری تعمیل کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا نوٹس متعلقہ شخص کو ملنے پر اس کا ثبوت تصویر یا دستخط کی صورت میں فراہم کیا جائے۔
کمیشن نے قرار دیا کہ معلومات فراہم کرنے والے کو شناخت ظاہر کرنا لازمی ہوگا، نامعلوم ذرائع سے آنے والی معلومات قابل قبول نہیں ہوں گی، ٹرانسکرپٹ میں غلطی ہوئی تو متعلقہ افسر کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ انکوائری کمیشن، سپریم جوڈیشل کونسل نہیں ہے، کمیشن کسی جج کے خلاف کوئی کارروائی کر رہا ہے نہ کرے گا، کمیشن صرف حقائق کے تعین کے لیے قائم کیا گیا ہے۔ سپریم جوڈیشل کونسل کے دائرہ اختیار میں مداخلت نہیں ہوگی۔ تمام گواہوں کی نہ صرف عزت کریں گے بلکہ جواب میں عزت کی توقع بھی کرتے ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کمیشن کو اختیار ہے کہ تعاون نہ کرنے والوں کو سمن جاری کرسکے، کمیشن صرف نوٹس جاری کرے گا، کوشش ہوگی کسی کو سمن جاری نہ ہوں، حکومتی افسران کے پاس پہلے ہی انکار کی گنجائش نہیں ہوتی۔
آڈیوز سے متعلقہ تمام افراد کے بیان ریکارڈ کریں گے: جوڈیشل کمیشن
جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ حکومت نے میری چھٹیاں خراب کر دی ہیں۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا صرف آپ اکیلے نہیں ہم سب نے بھی چھٹیوں پر جانا تھا، اس پر جسٹس فائز عیسٰی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا میں اکیلا نہیں بیگم کیساتھ جا رہا تھا۔
کمیشن نے حکم دیا کہ کمیشن کی ہر کارروائی الگ سے ویب سائیٹ پر لگائی جائے، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ کارروائی پی ڈی ایف کی صورت میں اپ لوڈ کریں گے، جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا وہ آپ خود دیکھ لیں سنا ہے پی ڈی ایف میں بھی تبدیلی ہوسکتی ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا حکومت کا کمیشن کی کارروائی تبدیل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔
کمیشن نے حکم دیا کہ اٹارنی جنرل آڈیوز اور ان کے مصدقہ ٹرانسکرپٹ کی 4 کاپیاں بدھ (24مئی) تک جمع کرائیں۔ 2 افراد کی آڈیو میں اگر کسی تیسرے فریق کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے تو وہ کمیشن کی کارروائی میں شریک ہوسکتا ہے، آڈیوز سے متعلقہ تمام افراد کے بیان ریکارڈ کریں گے۔
جوڈیشل کمیشن نے ہدایت کی کہ اگر کوئی فریق نوٹس وصول نہ کرے تو نوٹس اس کے گھر کے باہر چسپاں کر دیا جائے۔ کمیشن نے قرار دیا کہ آئندہ کارروائی 27 مئی بروز ہفتہ دن 10 بجے ہوگی۔
آڈیو لیکس تحقیقات: 3 رکنی جوڈیشل کمیشن کیا ہے؟
حکومت نے 19 مئی کو ججز سے متعلق آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے 3 رکنی جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا تھا جس کا باقاعدہ نوٹیفکیشن بھی جاری کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی جوڈیشل کمیشن میں چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ نعیم اختر افغان، چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق شامل ہیں۔
نوٹیفکیشن کے تحت جوڈیشل کمیشن کی تشکیل سے آڈیو لیکس کی صداقت اور عدلیہ کی آزادی پر پڑنے والے اثرات کی تحقیقات کی جا سکیں گی، کمیشن 30 روز میں مبینہ آڈیوز پر تحقیقات مکمل کرے گا۔
3 رکنی انکوائری کمیشن سابق وزیراعلیٰ پنجاب کی سپریم کورٹ کے جج کے ساتھ مبینہ آڈیو لیک، سابق وزیراعلیٰ کی ایک وکیل کے ساتھ گفتگو کی آڈیو لیک سمیت سابق وزیراعظم عمران خان اور مسرت جمشید چیمہ کے درمیان ہونے والی گفتگو کی آڈیو لیکس کی بھی تحقیقات کرے گا۔
نوٹیفکیشن کے مطابق اٹارنی جنرل کمیشن کی معاونت کریں گے۔ کمیشن 30 روز میں تحقیقات مکمل کرے گا تاہم تحقیقات کے لیے مزید وقت درکار ہوا تو وفاقی حکومت مزید وقت دے گی۔