پاکستان تحریک انصاف نے آڈیو لیکس کی تحقیقات کرنے والے 3 رکنی جوڈیشل کمیشن کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے۔
پی ٹی آئی کی جانب سے ایڈووکیٹ بابراعوان نے دائر آئینی درخواست میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دیا جائے، کیونکہ چیف جسٹس آف پاکستان کی اجازت کے بغیر کسی جج کو کمیشن کے لیے نامزد نہیں کیا جا سکتا۔
پی ٹی آئی نے اپنی درخواست میں مزید کہا کہ سپریم کورٹ کے کسی جج کے خلاف تحقیقات یا کارروائی کا فورم صرف سپریم جوڈیشل کونسل ہے۔
کیا کوئی ادارہ کسی کے فون ٹیپ کر سکتا ہے؟ بابر اعوان
پی ٹی آئی رہنما اور وکیل بابر اعوان نے کہا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی طرف سے ابھی انکوائری کمیشن کے خلاف درخواست دائر کی ہے، کمیشن میں شامل ججز ہمارے لیے محترم ہیں ان کے حوالے سے کچھ چیلنج نہیں کیا صرف حکومتی بدنیتی اور عدلیہ پر حملے کو چیلنج کیا ہے۔
سپریم کورٹ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بابر اعوان کا کہنا تھا کہ سوال یہ ہے کہ کیا کوئی ادارہ کسی کے فون ٹیپ کر سکتا ہے؟ 1996 میں آئی بی کے ڈی جی کو ہتھکڑی لگا کر پیش کیا گیا تھا، سپریم کورٹ 1998 میں طے کر چکا ہے کہ کوئی بھی فون ٹیپ نہیں کر سکتا۔
بابر اعوان کا کہنا تھا کہ کمیشن کے ٹی او آر ناقص ہیں، کیونکہ ٹی او آرز کے مطابق فون ٹیپ کرنے والا حاجی اور جن کی آوازیں ہیں وہ گنہگار ہیں۔ سپریم کورٹ سے استدعا ہے کہ پتا کرے فون کس نے اور کس قانون کے تحت ٹیپ کیے؟ کس اتھارٹی نے اجازت دی ہے کہ ججز کے فون ٹیپ کیے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ اس معاملے پر جوڈیشل کمیشن بنائے جیسے میمو گیٹ پر بنایا تھا، سپریم کورٹ دھاندلی پر بھی کمیشن تشکیل دے چکا ہے۔
انکوائری کمیشن، سپریم جوڈیشل کونسل نہیں، کسی جج کے خلاف کارروائی کر رہا ہے نہ کرے گا: جسٹس قاضی فائز عیسٰی
آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے بنائے گئے جوڈیشل کمیشن کے سربراہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے آج کی کارروائی کے دوران ریمارکس دیئے تھے کہ کمیشن کی کارروائی فوجداری ہے نہ ہی یہ سپریم جوڈیشل کونسل ہے۔ کمیشن کسی جج کے خلاف کوئی کارروائی کر رہا ہے نہ کرے گا، کمیشن صرف حقائق کے تعین کے لیے قائم کیا گیا ہے۔ سپریم جوڈیشل کونسل کے دائرہ اختیار میں مداخلت نہیں ہو گی۔ تمام گواہوں کی نہ صرف عزت کریں گے بلکہ جواب میں عزت کی توقع بھی کرتے ہیں۔ہم نے صرف حقائق تلاش کرنے ہیں کسی کے خلاف کارروائی نہیں کرنی۔
آڈیو لیکس تحقیقات: 3 رکنی جوڈیشل کمیشن کیا ہے؟
حکومت نے 19 مئی کو ججز سے متعلق آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے 3 رکنی جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا تھا جس کا باقاعدہ نوٹیفکیشن بھی جاری کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی جوڈیشل کمیشن میں چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ نعیم اختر افغان، چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق شامل ہیں۔
نوٹیفکیشن کے تحت جوڈیشل کمیشن کی تشکیل سے آڈیو لیکس کی صداقت اور عدلیہ کی آزادی پر پڑنے والے اثرات کی تحقیقات کی جا سکیں گی، کمیشن 30 روز میں مبینہ آڈیوز پر تحقیقات مکمل کرے گا۔
3 رکنی انکوائری کمیشن سابق وزیراعلیٰ پنجاب کی سپریم کورٹ کے جج کے ساتھ مبینہ آڈیو لیک، سابق وزیراعلیٰ کی ایک وکیل کے ساتھ گفتگو کی آڈیو لیک سمیت سابق وزیراعظم عمران خان اور مسرت جمشید چیمہ کے درمیان ہونے والی گفتگو کی آڈیو لیکس کی بھی تحقیقات کرے گا۔
نوٹیفیکیشن کے مطابق اٹارنی جنرل کمیشن کی معاونت کریں گے۔ کمیشن 30 روز میں تحقیقات مکمل کرے گا تاہم تحقیقات کے لیے مزید وقت درکار ہوا تو وفاقی حکومت مزید وقت دے گی۔