بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بابری مسجد کی جگہ تعمیر ہونے والے رام مندر پر نام نہاد مقدس کیسر ی جھنڈا لہرا کر ایک بار پھر اپنے ہندوتوا ایجنڈے کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے۔
ایک ایسے ملک میں جو کبھی تعددیت اور سیکولر اقدار کے لیے پہچانا جاتا تھا، اس تقریب کو مودی حکومت نے ’قومی یکجہتی‘ کا لمحہ قرار دینے کی کوشش کی، لیکن حقیقت میں یہ منظر بھارتی اقلیتوں، خصوصاً مسلمانوں کے لیے گہرے زخم تازہ کرنے کا باعث بنا۔
یہ بھی پڑھیں:
تقریب کے دوران ٹی وی اینکرز نے اسے ’تہذیب کی نئی پیدائش‘ قرار دیا، جبکہ وزرا نے اسے بھرپور سیاسی تماشہ بنا دیا۔ جشن و جلوس میں وہ تلخ حقیقت تقریباً فراموش کر دی گئی کہ بابری مسجد ایک مشتعل ہجوم نے ریاستی اداروں کی ناک کے نیچے شہید کی تھی، اور پھر اس طویل تنازع میں بھارتی ریاست بالخصوص عدلیہ نے بھی اپنا کردار ادا کیا۔
1992 میں مسجد کی شہادت کے بعد بھی معاملات یوں ہی نہیں رکے، بھارتی سپریم کورٹ نے 2019 میں مسجد کی زمین ہندو فریقین کے حوالے کر دی، حالانکہ عدالت نے واضح طور پر تسلیم کیا کہ مسجد کا انہدام غیر قانونی تھا۔
مزید پڑھیں:
اس فیصلے پر عالمی سطح پر تنقید ہوئی اور خود بھارت کے کئی حلقوں نے اسے اکثریتی سیاست کی جیت قرار دیا۔ بہت سے بھارتی مسلمانوں کے نزدیک یہ فیصلہ قبول کرنا مجبوری تھی، رضامندی نہیں۔
تاریخی طور پر 16ویں صدی میں مغلیہ دور میں جنرل میر باقر نے ایودھیا میں بابری مسجد تعمیر کی، جو صدیوں تک مرکزی عبادت گاہ رہی۔ بعد ازاں یہ دعویٰ کیا گیا کہ اسی جگہ رام کی پیدائش ہوئی تھی، یہ ایک ایسا دعویٰ ہے جو مسجد کی تعمیر کے کئی سو سال بعد سامنے آیا اور جسے ماہرین اسلاموفوبیا سے جڑی سیاسی مہم قرار دیتے ہیں۔
مزید پڑھیں:
ماہرین کے مطابق رام مندر تحریک 1980 کی دہائی سے ہندو قوم پرست سیاست کی ریڑھ کی ہڈی رہی ہے، جس نے ووٹروں کو متحرک کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا، یہی وجہ ہے کہ مودی کی 2024 کی رام مندر کی تقریبِ افتتاح اور اب ہندو پرچم لہرانے کی کارروائی کو انتخابی مفاد سے جوڑا جا رہا ہے۔
ان تمام تناظرات میں مودی اور جوگی ادتیہ ناتھ کا متنازع مقام پر ہندو جھنڈا لہرانا بھارتی مسلمانوں کے لیے نہایت تکلیف دہ ہے۔
مزید پڑھیں:
25 کروڑ مسلمانوں کے لیے یہ کارروائی ان کے مذہبی ورثے کی پامالی، عدم تحفظ کے احساس اور حاشیے پر دھکیلنے کی علامت بن چکی ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق یہ محض ایک علامتی تقریب نہیں بلکہ مذہبی انتہا پسندی اور ہجوم کے تشدد کے نتائج کی سرکاری توثیق ہے۔
ہیومن رائٹس واچ نے بھی مندر کی افتتاحی تقریبات کے بعد مختلف شہروں میں فرقہ وارانہ جھڑپوں، توڑ پھوڑ اور حملوں کی رپورٹ دی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ فتح مندی تشدد کو ہوا دے سکتی ہے۔
مزید پڑھیں:
مبصرین کے مطابق بھارت میں یہ تاثر تیزی سے تقویت پارہا ہے کہ ایک طبقے کی کامیابی دوسرے کے حقوق اور تاریخ کی قیمت پر حاصل کی جا رہی ہے۔
ناقدین کے نزدیک وزیر اعظم مودی اس عمل کو تاریخ کا سنگ میل قرار دیتے ہیں، مگر یہ ’تاریخ‘ وہ ہے جو انتخابی سیاست کی ضرورتوں کے تحت ازسرِنو لکھی جا رہی ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا ایسی یادداشتوں پر تعمیر ہونے والا ملک واقعی سب کے لیے شمولیتی ہوسکتا ہے؟ اور جب قومی شناخت کو صرف اکثریت کے غرور سے جوڑا جائے تو اقلیتوں کے لیے اس میں کیا جگہ باقی رہ جاتی ہے؟













