بھارت کے علاقے نوئیڈا میں بچوں کے قتل کے کیس کو تقریباً 2 دہائیاں گزرنے کے بعد ایک بار پھر ملک بھر میں بحث چھڑ گئی ہے۔
بھارتی سپریم کورٹ نے مقدمے کے آخری ملزم سرندر کُولی کو بھی بری کر دیا ہے۔ 12 نومبر کو عدالتِ عظمیٰ نے اُن کے خلاف زیرِ التوا آخری مقدمے میں سابقہ فیصلے کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کا اعترافی بیان جس میں انسانیت سوز جرائم کا ذکر تھا، تشدد کے ذریعے حاصل کیا گیا اور قابلِ اعتماد نہیں تھا۔
یہ بھی پڑھیے: بچے کے اغوا اور قتل کا مقدمہ، سپریم کورٹ نے 15 سال بعد ملزمان کو بری کردیا
یہ کیس دسمبر 2006 میں اُس وقت منظرِ عام پر آیا جب نوئیڈا کے علاقے نٹھاری میں واقع بنگلے کے قریب گٹر اور نالیوں سے 19 خواتین اور بچوں کی ہڈیاں، کھوپڑیاں اور کپڑے ملے۔ بنگلے کے مالک تاجر موندر سنگھ پنڈہر اور اُن کے خادم سرندر کُولی کو اسی وقت گرفتار کر لیا گیا تھا۔ ابتدائی تحقیقات اور منظرِ عام پر آنے والے شواہد نے ملک بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی تھی۔
سالوں تک دونوں ملزمان کو مختلف مقدمات میں سزائے موت سنائی جاتی رہی، تاہم تحقیقاتی عمل میں سنگین خامیوں کے باعث 2023 میں پنڈہر اور اب 2025 میں کُولی کو بھی بری کر دیا گیا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ پولیس اور تحقیقاتی اداروں نے ’آسان راستہ‘ اختیار کرتے ہوئے ایک غریب ملازم کو ملوث کیا جبکہ حقیقی قاتل تک پہنچنے میں سنگین غفلت برتی گئی۔
یہ بھی پڑھیے: کرائم ویب سیریز سے متاثر ہوکر 15 سالہ لڑکے نے بچے کو قتل کردیا
متاثرہ خاندانوں کی اکثریت اب نٹھاری چھوڑ چکی ہے، مگر وہ دو خاندان جو آج بھی وہاں مقیم ہیں، بے یقینی اور صدمے کا شکار ہیں۔ بچوں کے والدین سوال اٹھا رہے ہیں کہ اگر پنڈہر اور کُولی بے گناہ ہیں تو پھر اُن کے بچوں کو قتل کس نے کیا؟
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ سے دوبارہ تحقیقات کی درخواست کی جا سکتی ہے، لیکن 19 سال گزر جانے کے بعد اس کے کامیاب ہونے کے امکانات انتہائی کم ہیں۔













