9 مئی کے واقعات کے بعد عمران خان تو اپنے گھر میں موجود ہیں مگر جو رونقیں ان کے گھر کے باہر صبح و شام جاری رہتی تھیں وہ اب ختم ہوکر رہ گئی ہیں۔ پہلے بڑی بڑی گاڑیوں میں آنے والے رہنماؤں کا جو تانتا بندھا رہتا تھا وہ اب تھم چکا ہے اور گاڑیوں کی وہ طویل قطاریں بھی اب ختم ہوچکی ہیں۔ عمران خان کے گھر کے 400 میٹر کے علاقے میں جہاں سے پہلے گزرنا بھی محال ہوتا تھا اب وہ راستے سائیں سائیں کررہے ہیں۔
رکاوٹیں ختم انتظامیہ نے سب کچھ کلیئر کر دیا
لاہور کی ضلعی انتظامیہ نے ہفتے کے روز زمان پارک اور اس سے ملحقہ سٹرکوں کو بھاری مشینری سے کلیر کروادیا تھا۔ سڑک کنارے لگے ٹینٹ، میلے ٹھیلے بھی اب کہیں نظر نہیں آتے۔ پہلے پی ٹی آئی کے کارکنوں کے ہجوم کی وجہ سے جو سے جو ٹریفک جام رہتا تھا اب وہاں ایسا کچھ نہیں ہے اور اطراف کے مکین اپنے گھروں سے بآسانی آ جا رہے ہیں۔ انتظامیہ نے تمام راستے عوام کے لیے کھول دیے ہیں جو کچھ روز پہلے آپریشن کے نام پر بند کر دیے گئے تھے۔
’ہن او گلاں نئیں رئیاں‘
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے ایک کارکن کا کہنا تھا کہ ’ہن او گلاں نئیں رئیاں‘ یعنی اب وہ بات نہیں رہی۔ ان کا کہنا تھا کہ ریاست کی طاقت کے آگے کوئی نہیں ٹھہر سکتا اب تو کارکنان کی جانب سے یہاں لگایا گیا مرشد چوک کے نام کا بورڈ تک اکھاڑ کر پھینک دیا گیا ہے۔
کارکن کا یہ بھی کہنا تھا کہ جیو فینسنگ کی وجہ سے بھی لوگ یہاں نہیں آرہے کیوں کہ جو یہاں آئے گا اس کی لوکیشن آجائے گی اور اسے گرفتار کر لیا جائے گا اس وجہ سے اب ہر طرف ویرانی ہی ویرانی ہے۔
خیموں کی جگہ نئے پودوں نے لے لی ہے
پچھلے کئی ماہ سے زمان پارک کے باہر سڑک کنارے ہر طرف ٹینٹ ہی ٹینٹ لگے ہوتے تھے لیکن اب ٹھیک اسی جگہ پارکس اینڈ ہارٹیکلچر اتھارٹی (پی ایچ اے) نے نئے پودے لگادیے ہیں ۔ پی ایچ اے کا کہنا ہے کہ یہاں بیشمار درخت ہوا کرتے تھے جو پی ٹی آئی کے کارکنوں نے اکھاڑ پھینکے تھے لیکن اب یہاں دوبارہ درخت و پودے لگائے جا رہے ہیں جنہیں کسی نے نقصان پہنچایا تو انتظامیہ حرکت میں آجائے لہٰذا عمران خان کو چاہیے کہ وہ اپنے کارکنوں کو ایسے کسی عمل سے باز رہنے کی ہدایت کردیں۔
’عمران خان نے اب کال دی تو کوئی نہیں آئے گا‘
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے ایک اور کارکن کا کہنا تھا کہ اگرچہ اب زمان پارک کی طرف جانے والے راستے کھول دیے گئے ہیں لیکن اب اگر عمران خان نے گرفتاری سے بچنے کے لیے عوام کو کوئی کال دی تو یہاں زمان پارک کوئی نہیں آئے گا کیوں کہ کارکنوں میں خوف و ہراس پھیلا چکا ہے اور انہیں لگتا ہے کہ وہ کسی بھی وقت اٹھا لیے جاسکتے اس لیے کچھ بھی کرنا اب خطرے سے خالی نہیں ہوگا۔ کارکن کا کہنا تھا کہ اسی بات کے پیش نظر نہ ہی ورکرز یہاں آتے ہیں اور نہ ہی رہنما یہاں کا رخ کر رہے ہیں۔