شاردا مندر میں کیا خاص ہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے علاقے ٹیٹوال میں اس کی نقل بنا ڈالی ؟ کیا آزاد کشمیر میں مذہبی اور ثقافتی سیاحت کو فروغ دیکر لاکھوں ڈالر کا زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے؟ شاردا مندر پر ہندوؤں کے دعوے کی حقیقت کیا ہے؟
کشمیر کو فردوسِ بریں فقط اس کی قدرتی حسن سے مالامال وادیوں، بلند و بالا پربتوں، سرسبز کہساروں، ٹھنڈے میٹھے چشموں اوربہتی ندیوں کی وجہ سے نہیں کہا جاتا بلکہ اس کی امن و آتشی اورمحبت و رواداری کے ستونوں پر صدیوں سے کھڑی تہذیب اسے صحیح معنوں میں جنت بناتی ہے۔
ہزاروں سالوں سے یہ خطہ مختلف مذاہب، رنگوں، نسلوں اور ثقافتوں کا مسکن رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں صدیوں پرانے مقامات اور عمارات، جن میں کئی مذاہب کی عبادت گاہیں بھی شامل ہیں، کثرت سے موجود ہیں۔
شاردا پیٹھ ایک ایسا ہی مقام ہےجو آج بھی اپنے تئیں کشمیر کے تابناک ماضی کا بھرپور منظر پیش کرتا ہے۔
یہاں ایک بوسیدہ سا مندر بھی ہے جسے ہندو دیوی سرسوتی کا مسکن مانتے ہیں اور اسے انتہائی اہمیت کی حامل زیارت گاہ قرار دتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت نے ضلع کپواڑہ کے سرحدی گاؤں ٹیٹوال میں ماتا شاردا دیوی مندر کا عکس تعمیر کیا ہے جس کا افتتاح ہندوستانی وزیر داخلہ امیت شاہ نے امسال مارچ میں کیا۔ انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ شاردا مندر کی زیارت کے لیے ہندو یاتریوں کو راہداری دی جائے ۔
مگر تاریخ دانوں اور محققین کے مطابق شاردا محض ایک ہندو مندر نہیں بلکہ یہ ہزاروں سالوں سے علم و تہذیب کا مرکز رہا ہے۔ شاردہ سے ملنے والے تاریخی شواہد سے پتا چلتا ہے کہ یہ بالکل ٹیکسلا کی نالندہ تہذیبوں سے ملتی جلتی تہذیب تھی اور جنوبی ایشیاء سے بدھ مت کے راہب اور سکالرز اس کے دورے پر آتے رہے ہیں۔
شاردا پرہندوؤں کے دعوے ، اس تاریخی مقام کے معمے ، اور اس تک رسائی کیلئے راہداری کے قیام پر محققین کا مزید کیا کہنا ہے، جانیے ایم ڈی مغل کی اس ویڈیو اسٹوری میں۔