دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ قوموں کی تقدیر جذباتی نعروں، جھوٹے وعدوں یا وقتی مقبولیت سے نہیں بدلتی۔ قومیں تب اُبھرتی ہیں جب وہ عقل، اخلاق، علم اور تربیت کے راستے پر چلتی ہیں۔ یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جسے مشہور برطانوی فلاسفر’انتھونی کلیفوڑ گریلنگ‘ اپنی کتاب (The Meaning of Things) میں بار بار دہراتے ہیں کہ انسان کی اصل عظمت اس کے علم و استدلال اور اخلاقی بصیرت میں پوشیدہ ہے، نہ کہ اُن چرب زبانی کرنے والے حکمرانوں میں جنہیں جھوٹی دیانت اور مصنوعی عظمت کا خول پہنا کر عوام کے سامنے پیش کر دیا جاتا ہے۔
فکری غلامی، توہمات، جادو، اور غیر مرئی سہاروں کا تصور انسان کو اس کی ذہنی آزادی سے محروم کر دیتا ہے۔ گریلنگ لکھتے ہیں:’جب انسان دلیل کی روشنی چھوڑ دیتا ہے، وہ غیر مرئی سہاروں کے اندھیروں میں بھٹکنے لگتا ہے اور قومیں اس وقت پستی کا شکار ہوتی ہیں جب فیصلے عقل اور ثبوت کے بغیر کیے جائیں۔‘
جذباتیت، نفرت، شدت پسندی اور مذہبی جنون نے پہلے ہی معاشرے کو کھوکھلا کر دیا تھا؛ اس پر مستزاد یہ کہ توہم پرستی اور غیر مرئی طاقتوں پر بھروسے نے ہمیں اُن تہذیبوں سے بھی نیچے گرا دیا جن کی بنیادیں بت پرستی پر قائم تھیں۔
دی اکانومسٹ کی حالیہ رپورٹ میں عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی سے متعلق بعض روحانی اثرات اور ماورائی مداخلتوں کے الزامات زیرِ بحث آئے۔ ان دعوؤں کی صحت سے قطع نظر، اصل مسئلہ کچھ اور ہے، ’کیا ہماری سیاست دلیل کے مینار پر کھڑی ہے یا اَن دیکھے سائے اور توہمات اس کے ستون ہیں؟۔‘ یہ سوال محض شخصیات کا نہیں، بلکہ ہمارے اجتماعی سیاسی ذہن کا آئینہ ہے۔
گریلنگ کے مطابق ’توہم پرستی انسان کی وہ لغزش ہے جس میں انسان اپنے خوف، خواہش اور اضطراب کو ’حقیقت‘ سمجھنے لگتا ہے۔ جادو ٹونا، عملیات، غیبی اشارے، خواب اور دعائیں وغیرہ، یہ سب وہ ذہنی پناہ گاہیں ہیں جہاں پر قوم اپنی ذمہ داریوں کے بوجھ سے بھاگ کر آرام تلاش کرتی ہے۔
مگر تاریخ بتاتی ہے کہ قومیں کبھی ان پناہ گاہوں میں زندہ نہیں رہ سکتیں اور اگر کوئی قوم ایسا کرے گی تو پاتال کی گہرائیوں میں گر کر اپنا نام و نشان مٹا دے گی۔ جب کسی ملک کی سیاست غیر مرئی تصورات کے سہارے چلنے لگے تو فیصلے انسانوں کی بنیادی ضروریات، اور میرٹ کے بجائے خوابوں اور خوفوں سے تشکیل پاتے ہیں۔گریلنگ کے نزدیک یہ محض غیر سائنسی روش نہیں، بلکہ ایک اخلاقی اور سماجی کمزوری کی علامت ہے۔
پاکستانی سیاست کا ایک دیرینہ زخم شخصیت پرستی ہے، اور یہ وہ گورکن ہے جو سوال کی قبر کھود کر اسے زندہ دفن کر دیتا ہے، پھرافراد نظریات اور اصولوں سے بڑے ہو جاتے ہیں، اور ایک وقت آتا ہے جب جاہل عقیدت مندوں کا جمِ غفیر کسی نااہل انسان کو کندھوں پر بٹھا کر اُسے بُت بنا دیتا ہے۔ایک ایسا بت جس کے گرد رسومات ادا ہوتی ہیں اور جس پر تنقید ’گستاخی‘ سمجھی جاتی ہے۔
گریلنگ اسی کیفیت کے متعلق خبردار کرتے ہیں: ’جب کوئی فرد اصولوں سے بڑا ہو جائے تو قومیں اپنی سوچ گروی رکھ کر محض بت کی پیروی میں زندگی گزارنے لگتی ہیں اور چوہوں کی طرح اندھیری سرنگ میں سانسیں لے کر خوش ہوتی ہیں۔‘ یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب آزادی آخری سانس لیتی ہے، کیونکہ جہاں رہنما پر تنقید جرم بن جائے وہاں شعور کا چراغ بجھ جاتا ہے۔
ہمیں بتایا گیا کہ ہر 5 سال بعد ووٹ ڈالنا اور گنتی کرنا جمہوریت ہے، حالانکہ جمہوریت کا اصل مقصد سوال اٹھانے کی آزادی ہے۔ مگر ہماری قوم سوال کرنے کے بجائے رہنماؤں کی ہر بات کو حرفِ آخر سمجھنے لگتی ہے اور جماعتیں نظریاتی تنظیموں سے ہٹ کر فرقوں میں بدل جاتی ہیں۔ ’ہم سچے، باقی سب باطل‘ کا نعرہ جمہوریت کے دروازے کو اندر سے بند کردیتا ہے۔
دی اکانومسٹ کی رپورٹ میں جو بھی الزامات سامنے آئے، چاہے وہ روحانی رہنمائی سے متعلق ہوں، جادو ٹونے، عملیات یا غیبی اشاروں سے۔ ریاست کا ہر فیصلہ انسانی جانوں، معیشت اور اجتماعی مستقبل کو بدلتا ہے اور یہ وہ سوال ہے جو آج بھی اپنی جگہ کھڑا ہمارا منہ چڑا رہا ہے: ’کیا ہم ایسی ریاست کو قبول کر سکتے ہیں، جہاں سیاسی فیصلے عمل، عقل، دانش، لیاقت اور ثبوتوں کے بجائے توہمات، قرعہ اندازیوں اور جنات کے سہارے نکلیں؟۔‘
ماضی کے یہی وہ فیصلے تھے جو ماورائی ترجیحات اور غیبی خواہشات کو مدنظر رکھے کر کیے گئے اور یہ اخلاقی جرم بن کر اب سامنے آ رہے ہیں۔ کیونکہ ہمارے حکمرانوں نے اپنی اپنی ذمہ داری دلیل کے بجائے کسی غیبی سہارے کو سونپ رکھی تھی۔
گریلنگ کا قول یہاں پر ہماری رہنمائی کرتا ہے: ’انسان جب اپنی عقل سے دستبردار ہوتا ہے، تو وہ اپنی آزادی سے بھی دستبردار ہوچکا ہوتا ہے۔‘ اور یہی وہ نکتہ ہے جس پر آج ہمیں فیصلہ کرنا ہے: کیا ہم وہ قوم بننا چاہتے ہیں جس کا رہبر عقل ہو؟ یا وہ قوم جو جذبات، خوف، خواب، نفرت اور توہمات کے سائے میں بھٹکتی رہے؟
ہمارا مستقبل اس دن روشن ہوگا جب ہم بڑی سے بڑی سوکالڈ مذہبی، سماجی، سیاسی و عسکری شخصیت کو اصولوں کے تابع کر دیں گے۔ سوال کو جرم نہیں اپنا حق سمجھیں گے۔ سیاست کو مذہب اور روحانی سہاروں سے جدا کرکے فیصلوں کو علم و شواہد کے حوالے کر دیں گے۔ تبھی ہم اس دنیا میں سر اٹھا کر جی سکیں گے۔
آج بھی ہمارے ہاتھ میں عقل و شعور کا وہ چراغ موجود ہے جسے گریلنگ انسانی وقار کا درجہ دیتا ہے، مگر شرط صرف یہ ہے کہ ہم اس چراغ کو اپنی ہتھیلی پر اٹھائیں، اسے بجھنے نہ دیں، اور اس کی روشنی میں ہر فیصلے کو جانچنے اور پرکھنے کی کوشش کریں۔
پاکستان نہ توہمات کی بستی ہے، اور نہ ہی الف لیلوی داستان ہے، بلکہ یہ 25 کروڑ زندہ انسانوں کا وطن ہے۔ہمارے وطن کی تقدیر دلیل سے بدلے گی، نہ کسی غیر مرئی سہاروں سے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔












