19مئی 2023ء کو پاکستان کے کوہ پیما اسد علی میمن نے ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی سر کرنے کا
اعزاز حاصل کیا۔ وہ یہ چوٹی سر کرنے والے 10 ویں پاکستانی کوہ پیما ہیں۔ ان سے پہلے یہ اعزاز کن پاکستانی کوہ پیماؤں کے حصے میں آیا۔ آئیے ان کا جائزہ لیتے ہیں۔
19 ویں صدی کے وسط تک کوہ ہمالیہ کی چوٹی کنچن جنگا، جس کی بلندی 28168 فٹ ہے دنیا کی 19 ویں ترین چوٹی سمجھی جاتی تھی۔ 1849ء میں سروے ڈپارٹمنٹ آف گورنمنٹ آف انڈیا نے ہندوستان کی تمام چوٹیوں کی بلندی ازسرنو ناپنے کا اہتمام کیا جس کے بعد اعلان ہوا کہ کوہ ہمالیہ کی ایک چوٹی جس کا نام پیک 15 ہے دنیا کی بلند ترین چوٹی ہے اور اس کی بلندی 29002 فٹ یا 8840 میٹر ہے چونکہ اس سروے کا اہتمام ہندوستان کے پہلے سرویئر جنرل سرچارج ایورسٹ نے کیا تھا اس لیے 1865ء میں دنیا کی اس بلند ترین چوٹی کو انہی سے موسوم کردیا گیا اور یوں یہ چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ کہلانے لگی۔
20 ویں صدی کی تیسری دہائی میں ایورسٹ کی تسخیر کے لیے مہمات بھیجے جانے کا آغاز ہوا۔ 1921ء میں برطانیہ کے لیفٹیننٹ کرنل سی کے ہووارڈ ہیوری کی سرکردگی میں ایورسٹ کی تسخیر کے لیے پہلی مہم روانہ ہوئی لیکن یہ مہم ناکامی سے دوچار ہوئی اس
کے بعد کئی اور مہمات بھی ایورسٹ سر کرنے کے لیے روانہ ہوئیں اور بالآخر 11 جانوں کے اتلاف کے بعد 29 مئی 1953ء کو صبح ساڑھے 11 بجے اس چوٹی کو سر کرلیا گیا۔
ماؤنٹ ایورسٹ پر قدم رکھنے والے پہلے انسان نیوزی لینڈ کے ایڈمنڈ سری ویل ہلاری اور نیپال کے شرپاتن سنگھ نار تھے جنہوں نے یہاں اقوام متحدہ، برطانیہ، نیپال اور بھارت کے پرچم لہرائے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس مہم کی قیادت برطانیہ کے کرنل ہنری سیسل جان ہنٹ نے کی تھی جو خود چوٹی پر قدم نہ رکھ سکے۔ اس سال دنیا کی اس بلند ترین چوٹی کو سر کیے جانے کی 70 ویں سالگرہ منائی جارہی ہے۔
29مئی 1953ء سے 17مئی 2000ء کے دوران 898 کوہ پیماؤں نے ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی کو سر کیا مگر ان میں کوئی پاکستانی کوہ پیما شامل نہیں۔ یہ اعزاز نذیر صابر کی قسمت میں لکھا تھا جنہوں نے 17مئی 2000ء کونیپال کے وقت کے مطابق صبح ساڑھے سات بجے دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے کا اعزاز حاصل کرلیا۔ نذیر صابر نے اپنے اس تاریخی سفر کا آغاز 20 مارچ 2000ء کو نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو سے کیا تھا۔
7 مئی 2000ء کو وہ 7950 فٹ کی بلندی پر پہنچ کر موسم کی خرابی کے باعث واپس آگئے۔ دوسری مرتبہ 15مئی 2000ء کو 8750 فٹ کی بلندی تک پہنچے مگر پھر موسم کی خرابی کے باعث نیچے آگئے۔ دو مرتبہ موت کے منہ سے بچ نکلنے کے باوجود نذیر صابر نے ہمت نہ ہاری اور 17 مئی 2000ء کو دنیا کی اس بلند ترین چوٹی پر پاکستان کا پرچم لہرا دیا۔ انہوں نے پرچم لہرانے سے قبل خدا کے حضور سجدۂ شکر ادا کیا اور وہاں پاکستان کا قومی ترانہ بھی گایا۔ نذیر صابر ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے والے دنیا کے 899 ویں کوہ پیما تھے۔
پاکستانی کوہ پیماؤں میں نذیر صابر کے بعد یہ اعزاز حسن سدپارہ کے حصے میں آیا۔ جنہوں نے یہ کارنامہ 12 مئی 2011ء کو انجام دیا۔ حسن سدپارہ3 اپریل 1963ء کو اسکردو کے قریب سدپارہ نامی گائوں میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد اسد علی بھی اپنے زمانے کے مشہور کوہ پیما تھے۔ حسن سدپارہ نے اپنے کیریئر کا آغاز 1994ء میں کیا اور 1999ء میں نانگا پربت کو بغیر آکسیجن کے سر کرنے کا کارنامہ انجام دیا۔ جولائی 2004ء میں انہوں نے کے ٹو کے سر کیے جانے کی گولڈن جوبلی کے موقع پر دنیا کی اس دوسری اور پاکستان کی بلند ترین چوٹی کو سر کیا۔ 22 جولائی 2006ء کو انہوں نے گیشر برم ون اور 29جولائی 2006ء کو گیشر برم ٹو سر کرنے کا کارنامہ انجام دیا۔ انہوں نے براڈ پیک کو بھی سر کیا ۔ وہ
8000میٹر سے بلند دنیا کی پانچ چوٹیاں سر کرنے والے پہلے پاکستانی کوہ پیما ہیں۔21 نومبر2016ء کوان کا انتقال ہوگیا۔
19مئی 2013ء کو پاکستان سے تعلق رکھنے والی 21 سالہ ثمینہ خیال بیگ نے دنیا کی سب سے اونچی چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کر لیا۔ ثمینہ ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کرنے والی تیسری پاکستانی شخصیت اور پہلی پاکستانین خاتون بن گئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اس چوٹی تک پہنچنے والی سب سے کم عمر مسلمان خاتون بھی بن گئیں۔ وہ دنیا کی سات براعظموں کی بلند ترین چوٹیاں سر کرنے والی پہلی مسلمان خاتون بھی ہیں۔
ثمینہ کا پورا نام ثمینہ خیال بیگ ہے اور وہ ہنزہ کے علاقے گوجال کے گاؤں شمشال میں 19 ستمبر 1990ء کو پیدا ہوئیں۔ ثمینہ نے 4 برس کی عمر سے کوہ پیمائی کا آغاز کیا تھا۔ ان کے بھائی مرزا علی بیگ نے انہیں 15 برس کی عمر سے کوہ پیمائی کی باقاعدہ تربیت دینی شروع کی تھی۔
ثمینہ اور ان کے بھائی مرزا علی بیگ نے 31 مارچ 2013 ء کو اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس میں ماؤنٹ ایورسٹ پر جانے کی مہم کا اعلان کیا۔ دونوں بہن بھائی 1953ء میں ماؤنٹ ایورسٹ کے پہلی مرتبہ سر کئے جانے کی 60سالہ تقریبات کا حصہ بننے کا عزم دل میں لیے یکم اپریل کو نیپال روانہ ہوئے۔
19مئی 2013ء کو نیپال کے معیاری وقت کے مطابق صبح ساڑھے 7 بجے ثمینہ 2 بھارتی لڑکیوں تاشی اور نْنگشی کے ہمراہ چوٹی پر پہنچنے میں کامیاب ہو گئیں۔ یہ تینوں ایک ساتھ 8848 میٹر بلند ماؤنٹ ایورسٹ پر پہنچیں اور وہاں پہنچ کر انہوں نے پاکستان اور بھارت کے قومی پرچم ایک ساتھ لہرا کر دونوں ممالک کو دوستی اور امن کا پیغام دیا۔
ثمینہ کے بھائی مرزا علی بیگ نے چوٹی سے 248 میٹر دور رہ کر اپنی بہن کو چوٹی تک پہنچنے میں مدد دی۔ ثمینہ بیگ نے چوٹی تک پہنچنے کے لیے اضافی آکسیجن بھی استعمال نہیں کی۔ 19 مئی کی سہ پہر الپائن کلب آف پاکستان نے بھی اس کارنامے کی تصدیق کر دی۔ ثمینہ بیگ نے 2010ء میں ہنزہ میں واقع چاشکن سار نامی چوٹی کو بھی سب سے پہلے سر کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔ ان کے اس کارنامے کے بعد اس چوٹی کا نام ’’ثمینہ پیک‘‘ رکھ دیا گیا۔ 2022ء میں ثمینہ بیگ نے دنیا کی دوسری اور پاکستان کی بلند ترین چوٹی کے ٹو بھی سر کرلی۔
ثمینہ بیگ کے 4 سال بعد21 مئی 2017ء کو ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے کا اعزاز پاکستان کی بری فوج کے ریٹائرڈ لیفٹیننٹ کرنل عبدالجبار بھٹی کے حصے میں آیا۔ لیفٹیننٹ کرنل (ر) عبدالجبار بھٹی ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کرنے والی چوتھی پاکستانی شخصیت تھے۔
ان سے پہلے جن تین کوہ پیماؤں ںنذیر صابر، حسن سدپارہ اور ثمینہ خیال بیگ نے یہ اعزاز حاصل کیا تھا۔ ان تینوں کوہ پیمائوں کا تعلق گلگت، بلتستان سے تھا جبکہ لیفٹیننٹ کرنل (ر) عبدالجبار بھٹی کا تعلق پنجاب سے تھا۔ عبدالجبار بھٹی کے 2 برس بعد23 مئی 2019ء کو گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے کوہ پیما مرزا علی بیگ نے ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی کو سر کرنے کا اعزاز حاصل کرلیا۔ وہ پاکستان کے پہلے کوہ پیما تھے جنہوں نے دنیا کے 7 مختلف براعظموں کی بلند ترین چوٹیاں سر کرنے کا کارنامہ سر انجام دیا۔
مرزا علی بیگ ماؤنٹ ایورسٹ پر قدم رکھنے والے پاکستان کے 5 ویں کوہ پیما تھے۔ مرزا علی بیگ ثمینہ بیگ کے چھوٹے بھائی ہیں۔ وہ 2013ء میں اپنی بہن کی ٹیم میں شامل تھے لیکن کیمپ 4 سے ہی واپس ہوگئے تھے۔ یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلا موقع تھا جب 2 سگے بہن بھائیوں نے ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی سر کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔
11مئی2021ء کو پاکستان کے مشہورکوہ پیما شہروز کاشف نے صرف 19برس کی عمرمیں ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی سر کرنے کا اعزاز حاصل کرلیا۔ وہ یہ اعزاز حاصل کرنے والے پاکستان کے سب سے کم عمرکوہ پیما تھے۔
شہروز کاشف 11مارچ 2002ء کو لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے سے قبل انہوں نے صرف 17 سال کی عمر میں براڈ پیک کی چوٹی سر کرنے کا اعزاز حاصل کیا تھا جس کے بعد انہیں براڈ بوائے کا خطاب دیا گیا تھا۔
ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے کے بعد 27 جولائی 2021ء کو شہروز کاشف نے کے ٹو کی چوٹی پر قدم رکھا۔ وہ دنیا کی یہ دوسری بلند ترین چوٹی سر کرنے والے دنیا کے کم عمر ترین کوہ پیما تھے۔
شہروز کاشف کوبراڈ پیک اور کے ٹو کی چوٹی کم عمری میں سر کرنے پر گینز بک آف ریکارڈز نے خصوصی سند سے سرفراز کیا۔ 5مئی 2022ء کو شہروز کاشف نے کنچن جنگا اور 16 مئی 2022ء کو ماؤنٹ لہو سے کی چوٹیاں بھی سر کرلیں اور یوں اپنے ریکارڈ کو مزید بہتر بنالیا۔ وہ مناسلو، مکالو، نانگاپربت، گیشربرم1 اور گیشر برم2 کو سر کرنے کا اعزاز بھی حاصل کرچکے ہیں۔
جولائی 2022ء میں جب شہروز کاشف اپنے گائیڈ فضل احمد کے ساتھ دنیا کی 9 ویں بلند ترین چوٹی نانگا پربت سر کرکے واپس آرہے تھے تو خراب موسم کی وجہ سے ان کا رابطہ منقطع ہوگیاجس پر پاکستان آرمی نے انہیں تلاش کرنے کے لیے خصوصی آپریشن شروع کیا اور 4948 میٹرکی بلندی پر نانگا پربت کے کیمپ 1 سے دونوں کوہ پیمائوں کوریسکیو کرلیا گیا۔
اسی دوران 16مئی 2022ء کو پاکستانی کوہ پیما عبدالجوشی نے بھی دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے کا اعزاز حاصل کرلیا۔ وہ یہ اعزاز حاصل کرنے والے پاکستان کے 7 ویں کوہ پیما تھے۔ عبدالجوشی 3 دسمبر 1983ء کو شمشال میں پیدا ہوئے تھے۔
14مئی 2023ء کو پاکستان کے دو کوہ پیماؤں نائلہ کیانی اور ساجد سدپارہ نے ایک ہی دن مائونٹ ایورسٹ پر قدم رکھنے کا اعزاز حاصل کیا۔ نائلہ کیانی اور ساجد سدپارہ اس سے قبل دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو کو بھی سر کرچکے تھے۔
نائلہ کیانی نے 14مئی 2023ء کی صبح 8بجکر 2 منٹ پر شرپا پاسنگ ٹمبا کے ساتھ ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی پر قدم رکھ کر پاکستان کا جھنڈا لہرایا۔ وہ اس سیزن میں مائونٹ ایورسٹ سر کرنے والی پہلی غیر نیپالی کوہ پیما تھیں۔ نائلہ کیانی ماؤنٹ ایورسٹ اور کے ٹو کے علاوہ گیشرم برم 1، گیشر برم 2 اور اناپورنا کی چوٹیاں بھی سر کرچکی تھیں۔ اسی دن ساجد سدپارہ نے بھی بغیر آکسیجن اور بغیر شرپا کے ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے کا اعزاز حاصل کیا اور یوں انہوں نے اپنے مرحوم والد محمد علی سدپارہ کی خواہش کو پورا کردیا۔ اس سے قبل وہ اناپورنا، کے ٹو، مناسلو، جی ون اور جی ٹو کی چوٹیاں بھی آکسیجن کے بغیر سر کرنے کا کارنامہ انجام دے چکے ہیں۔
19 مئی 2023ء کو صبح 7 بجکر 51 منٹ پر لاڑکانہ سے تعلق رکھنے والے کوہ پیما اسد علی میمن نے بھی ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کرنے کا اعزاز حاصل کرلیا اور وہاں پاکستان کا جھنڈا لہرا دیا۔
اسد علی میمن انسٹیٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ کراچی کے طالب علم ہیں اور وہ صوبہ سندھ سے تعلق رکھنے والے پہلے کوہ پیما ہیں جنہوں نے دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کرنے کا کارنامہ انجام دیا ہے۔ اسد علی میمن اس سے قبل دنیا کے ساتوں براعظموں کی 7 بلند ترین چوٹیاں سر کرنے کا اعزاز بھی رکھتے ہیں۔
یہ تھا ان 10پاکستانی کوہ پیماؤں کا احوال جنہوں نے ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔
پاکستان کی کوہ پیمائی کی تاریخ میں ایک کوہ پیما ایسے بھی گزرے ہیں جنہوں نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے 22 مئی 2007ء کو دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کرنے کا اعزاز حاصل کیا ہے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ وہ نذیر صابر کے بعد اس چوٹی کو سر کرنے والے پاکستان کے دوسرے مہم جو ہیں۔
حکومت پاکستان نے انہیں ان کے اس کارنامے پر 14 اگست 2008ء کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی بھی عطا کیا ۔ اس کوہ پیما کا نام محمد فیضان تھا ۔ وہ کراچی کے رہنے والے تھے مگر بعدازاں ان کا یہ دعویٰ غلط ثابت ہوا۔ انہوں نے اپنے دعوے کے ساتھ جو تصویر جاری کی تھی وہ ماؤنٹ ایورسٹ کی نہیں بلکہ بیس کیمپ کی تھی۔