بنگلہ دیش میں 16 سال قبل ہونے والی پُرتشدد بغاوت کی تحقیقات کے لیے قائم کمیشن نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ درجنوں سینیئر فوجی افسروں سمیت قتل عام کو حکم سابق وزیرِ اعظم شیخ حسینہ نے دیا تھا۔
2009 میں ڈھاکا سے شروع ہونے والی اور ملک بھر میں پھیل جانے والی 2 روزہ بغاوت کے دوران بارڈر گارڈز بنگلہ دیش کے مشتعل اہلکاروں نے 74 افراد کو ہلاک کیا تھا، جن میں کئی اعلیٰ فوجی افسران بھی شامل تھے۔
یہ بھی پڑھیں:شیخ حسینہ کو اپنی ہی قائم کردہ عدالت نے سزائے موت کا فیصلہ سنا دیا
یہ واقعہ حسینہ کے دوبارہ برسرِ اقتدار آنے کے چند ہی ہفتوں بعد پیش آیا، جس سے ان کی حکومت شدید عدم استحکام کا شکار ہوئی۔
🟥Mega Update on the Bangladesh Rifles (BDR) Massacre 🟥
The National Independent Investigation Commission, formed to investigate the brutal killings carried out in the name of the BDR mutiny, submitted its final report today (Sunday) to Chief Adviser Professor Muhammad Yunus.… pic.twitter.com/yXqOhSCK3s
— Jashim (@jashim4truth) November 30, 2025
گزشتہ برس طلبا کی قیادت میں ہونے والی تحریک کے نتیجے میں حسینہ کی حکومت کا خاتمہ ہوا، جس کے بعد محمد یونس کی سربراہی میں قائم عبوری حکومت نے اس واقعے کی تحقیقات کے لیے نیا کمیشن تشکیل دیا۔
78 سالہ شیخ حسینہ اس وقت بھارت میں پناہ لیے ہوئے ہیں اور بنگلہ دیش واپسی کے عدالتی احکامات کو نظرانداز کر رہی ہیں۔
کمیشن کی اتوار کو جمع کرائی گئی رپورٹ کے مطابق شیخ حسینہ کی قیادت میں اس وقت کی عوامی لیگ حکومت براہِ راست اس بغاوت میں ملوث تھی۔
مزید پڑھیں: حسینہ واجد کو سزائے موت، بنگلہ دیش میں کہیں جشن، کہیں ہلچل
حکومت کے پریس آفس کے مطابق کمیشن کے سربراہ اے ایل ایم فضل الرحمان نے بتایا کہ سابق رکنِ پارلیمنٹ فضل نور تپوش ’مرکزی رابطہ کار‘ کے طور پر کام کر رہے تھے اور حسینہ کے اشارے پر قتل عام کا منصوبہ آگے بڑھایا گیا۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ تحقیقات میں ’ایک غیر ملکی طاقت‘ کے ملوث ہونے کے شواہد بھی واضح طور پر سامنے آئے ہیں۔
بعد ازاں پریس کانفرنس میں فضل الرحمٰن نے الزام عائد کیا کہ بھارت نے اس قتل عام کے بعد ملک کو غیر مستحکم کرنے اور ’بنگلہ دیشی فوج کو کمزور‘ کرنے کی کوشش کی۔
مزید پڑھیں: آمرانہ حکمرانی سے سزائے موت تک، شیخ حسینہ کا سیاسی سفر کیسا رہا؟
ان کا کہنا تھا کہ بنگلہ دیش کی افواج کو کمزور کرنے کی سازش طویل عرصے سے جاری تھی۔
بھارت نے تاحال ان الزامات پر کوئی ردِعمل ظاہر نہیں کیا۔
شیخ حسینہ کی بھارت سے قربت، اقتدار سے برطرفی کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی کا باعث بنی ہے۔
مزید پڑھیں: ’شیخ حسینہ کو نہیں بھارتی بالادستی کو سزائے موت سنائی گئی‘، بالآخر تاریخ کا فیصلہ سامنے آگیا
عبوری وزیرِ اعظم یونس نے کمیشن کی رپورٹ کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ قوم کئی برسوں سے 2009 کے قتل عام کی حقیقی وجوہات سے بے خبر رہی۔
ان کے بقول، کمیشن کی رپورٹ کے ذریعے اب آخرکار حقیقت سامنے آگئی ہے۔
اس واقعے کی پہلے کی تحقیقات میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ برسوں سے جمع شدہ غصہ، کم تنخواہوں اور نامناسب رویے پر اہلکاروں کی شکایات کو نظرانداز کیے جانے سے یہ بغاوت پھوٹی۔
تاہم یہ تحقیقات شیخ حسینہ کے دورِ حکومت میں ہوئی تھیں، اور ان کے مخالفین ابتدا سے ہی الزام عائد کرتے رہے تھے کہ انہوں نے اپنی سیاسی طاقت مضبوط کرنے اور فوج کو کمزور کرنے کے لیے اس بغاوت کی سازش کی۔














