چاند کی سطح پر ہونے والے روشنیوں کے پراسرار جھماکوں نے سائنسدانوں کو حیران کیا ہوا ہے اور وہ ابھی تک ان کی ٹھوس وجوہات معلوم نہیں کر سکے۔
ہر ہفتے چاند کے مختلف حصوں میں یہ روشنیاں کبھی لمحاتی جھماکوں کی شکل میں نظر آتی ہیں اور پھر غائب ہو جاتی ہیں اور کبھی گھنٹوں جگمگاتی رہتی ہیں، بعض اوقات پراسرار طور پر چاند کے کچھ حصوں پر مکمل اندھیر چھا جاتا ہے۔
باوجود اس کے کہ کئی دہائیوں سے ان کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے، سائنسدان ابھی تک یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ روشنیوں میں یہ عجیب و غریب تبدیلیاں کس لیے وقوع پذیر ہو رہی ہیں۔
سائنسدان اس پراسرار عمل کو ’’عارضی قمری مظہر ‘‘ قرار دیتے ہیں، 1970 کی دہائی میں شائع ہونے والے ایک سائنسی جریدے میں بیان کیا گیا کہ روشنیوں کی رنگت کبھی نیم گلابی تو کبھی سرخ دیکھی گئی ہے۔
اس جریدے میں بتایا گیا کہ یہ روشنیاں میلوں تک پھیلے علاقے میں عموماً 20 منٹ تک نظر آتی ہیں لیکن بعض اوقات ان کا دورانیہ گھنٹوں پر محیط ہوتا ہے۔
اس پراسرار مظہر کی کئی توجیہات پیش کی گئی ہیں جن میں چاند سے شہاب ثاقب کا ٹکراؤ، شمسی ہواؤں کا چاند پر پھیلی دھول سے تصادم اور چاند کی حرکت کے بعد سورج کی روشنی کے باعث پیدا ہونے والی گیسیں شامل ہیں۔ لیکن ابھی تک کوئی فیصلہ کن تشریح سامنے نہیں آئی۔
اب سائنسدانوں کو امید ہے کہ وہ بالآخر ان پراسرار روشنیوں کا راز پا لیں گے، اس کے لیے انہیں چاند کی سطح کو منظم طریقے سے چھاننا اور طویل مدت تک اس کا جائزہ لینا ہو گا۔
ایسی ایک کوشش جرمنی کی ایک یونیورسٹی کے پروفیسر حقان کائیل نے کی ہے، ان کی ٹیم نے اسپین میں ایک دوربین تیار کی ہے جس نے اس سال کے آغاز میں کام شروع کر دیا ہے۔
یہ دوربین روزانہ شام کے بعد چاند کی سطح کا جائزہ لے گی اور روشنی کے جھماکوں کو تصاویر اور ویڈیوز کی صورت میں ریکارڈ کر کے واپس بھیجتی رہے گی اور ٹیم اس کا تفصیلی جائزہ لیتی رہے گی۔
سائنسدانوں کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں چاند پر بستیاں بسانے سے پہلے اس کی سطح کا مکمل مشاہدہ لازم ہے، قمری روشنیوں کا تجزیہ اس سلسلے کی اہم کڑی ہے۔