الیکشن نظرثانی کیس: اچھی بات ہے کہ حکومت اس معاملے کو سنجیدہ لے رہی ہے، چیف جسٹس، سماعت کل تک ملتوی

منگل 23 مئی 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

 سپریم کورٹ  کے 14 مئی کو پنجاب انتخابات کے حکم کے خلاف الیکشن کمیشن کی نظرثانی اپیل پر سماعت کل تک کے لیے ملتوی کر دی گئی ہے۔

سپریم کورٹ  کے 14 مئی کو پنجاب انتخابات کے حکم کے خلاف الیکشن کمیشن کی نظرثانی اپیل پر چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے  سماعت کی جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر بنچ میں شامل تھے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی  نے دلائل میں کہا کہ تحریک انصاف سمیت کسی فریق کے جواب کی کاپی نہیں ملی، تمام جوابات کا جائزہ لینے کے لیے موقع دیا جائے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ اپنی درخواست پر تو دلائل دیں، آئندہ سماعت پر کوئی نیا نکتہ اٹھانا ہوا تو اٹھا سکتے ہیں ، پہلے یہ بتاناہے کہ کیسے نظرثانی درخواست میں نئے گراؤنڈز لے سکتے ہیں۔

ایکٹ آف پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ رولز کے علاوہ نظر ثانی دائرہ اختیار پر پابندی نہیں، وکیل الیکشن کمیشن

الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی کے سپریم کورٹ کے فیصلے خلاف نظر ثانی کے دائرہ کار پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 188 نظر ثانی دائرہ اختیار سے متعلق ہے، ایکٹ آف پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ رولز کے علاوہ نظر ثانی دائرہ اختیار پر پابندی نہیں، پارلیمنٹ نے نظر ثانی اختیارات کو محدود کرنے کے لئے کوئی ایکٹ پاس نہیں کیا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آئین سپریم کورٹ کو اپنے فیصلوں پر نظرثانی کی اجازت دیتا ہے، اب آگے چلیں۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ انتحابات سے کروڑوں عوام کے حقوق جڑے ہیں، پنجاب اور خیبرپختونخوا کے عوام کے حقوق انتحابات سے جڑے ہیں، عوامی مفاد تو 90 روز میں انتخابات ہونے میں ہے۔

آپ نے دلچسپ نکات اٹھائے ہیں، چیف جسٹس کا وکیل الیکشن کمیشن سے مکالمہ

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے دلچسپ نقاط اٹھائے ہیں، اچھی بات یہ ہے کہ حکومت اس معاملے کوسنجیدہ لے رہی ہے، پہلے تو وہ دو تین اور تین چار میں پڑے رہے، لیکن آپ یہ بتائیں کہ آپ نے یہ نکات پہلے کیوں نہیں اٹھائے؟

تحریک انصاف کی الیکشن کمیشن کی نظرثانی اپیل مسترد کرنے کی استدعا

تحریک انصاف نے پنجاب الیکشنز نظرثانی کیس میں جواب سپریم کورٹ میں جمع کرا دیا ہے۔

تحریک انصاف نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ نظرثانی اپیل میں الیکشن کمیشن نے نئےنکات اٹھائے ہیں، نظرثانی اپیل میں نئے نکات نہیں اٹھائےجا سکتے۔

تحریک انصاف کے مطابق الیکشن کمیشن نظرثانی اپیل میں نئے سرے سے دلائل دینا چاہتا ہے، عدالت نے اپنے فیصلے میں کوئی تاریخ نہیں دی، عدالت نے 90روز میں انتخابات کے لیے ڈیڈلائن مقرر کی، صدر مملکت نے انتخابات کےلئے 30 اپریل کی تاریخ دی، الیکشن کمیشن نے 30 اپریل کی تاریخ کو تبدیل کردیا، سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کافیصلہ کالعدم قرار دی کر 30 اپریل کی تاخیر کو کور کیا۔

پی ٹی آئی نے جواب میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ کو الیکشن کمیشن کا جائزہ لینے کا اختیار ہے، الیکشن کمیشن چاہتا ہے سپریم کورٹ نظریہ ضرورت کو زندہ کرے، نظریہ ضرورت دفن کیا چکا جسے زندہ نہیں کیا جا سکتا۔

جواب میں کہا گیا ہے کہ 90 روز میں الیکشن آئینی تقاضہ ہے، آرٹیکل 218 کی روشنی میں آرٹیکل 224 کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، آئین اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار دیتا ہے، آئین میں نہیں لکھا تمام انتخابات ایک ساتھ ہوں گے۔

تحریک انصاف کی طرف سے جواب میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کے کہنے پر سپریم کورٹ آئین میں ترمیم نہیں کرسکتی، آرٹیکل 254 کےلئے 90 دنوں میں انتخابات کے آرٹیکل 224 کو غیر موثر نہیں کیا جاسکتا، آئین کے بغیر زمینی حقائق کو دیکھنے کی دلیل نظریہ ضرورت اور خطرناک ہے، ی خطرناک دلیل ماضی میں آئین توڑنے کےلئے استعمال ہوئی، عدالت ایسی دلیل کو ہمیشہ کے لیے مسترد کرچکی ہے۔

تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کی نظرثانی اپیل مسترد کرنے کی استدعا کردی۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز وفاقی حکومت اور نگران حکومت پنجاب نے سپریم کورٹ کے 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کرانے کے حکم کے خلاف الیکشن کمیشن کی نظرثانی اپیل پر جواب سپریم کورٹ میں جمع کرایا تھا۔

سپریم کورٹ اپنے 4 اپریل کے فیصلہ پر نظرثانی کرے، وفاقی حکومت

وفاقی حکومت نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ آزادانہ اور شفاف انتخابات کروانے کی آئینی ذمہ داری الیکشن کمیشن کی ہے، سپریم کورٹ نے خود تاریخ دے کر الیکشن کمیشن کے اختیار کو غیر مؤثر کر دیا، اگر پنجاب میں انتخابات پہلے ہوئے تو قومی اسمبلی کے انتخابات متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔

جواب میں کہا گیا ہے کہ پنجاب سب سے زیادہ نشستیں رکھنے والا صوبہ ہے، پنجاب میں جیت سے یہ تعین ہوتا ہے کہ مرکز میں حکومت کون کرے گا، پنجاب میں انتخابات قومی اسمبلی کے ساتھ ایک ہی وقت میں ہونے چاہییں۔

وفاق نے استدعا کی ہے کہ سپریم کورٹ اپنے 4 اپریل کے فیصلہ پر نظرثانی کرے۔

الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار سپریم کورٹ کے پاس نہیں، نگران حکومت پنجاب

پنجاب حکومت نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار سپریم کورٹ کے پاس نہیں بلکہ یہ اختیار ریاست کے دیگر اداروں کا ہے۔ 14 مئی الیکشن کی تاریخ دے کر اختیارات کے آئینی تقسیم کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔

نگران حکومت پنجاب نے جواب میں کہا ہے کہ آرٹیکل 218 کے تحت صاف شفاف الیکشن کرانا الیکشن کمیشن کا اختیار ہے۔ اسی اختیارات کی تقسیم کے پیش نظر سپریم کورٹ نے کے پی الیکشن کی تاریخ نہیں دی، الیکشن پروگرام میں تبدیلی کا اختیار الیکشن کمیشن کا ہے۔

جواب میں کہا گیا ہے کہ 9 مئی کے واقعہ کے بعد سیکیورٹی حالات صوبے میں تبدیل ہو گیے ہیں۔ عمران خان کی گرفتاری کے بعد سول ملٹری املاک کو نقصان پہنچایا گیا، پر تشدد احتجاج اور مظاہرے ہوئے۔

چیف سیکرٹری پنجاب نے جواب میں کہا ہے کہ مظاہروں میں 162 پولیس اہلکار زخمی ہوئے اور 97 پولیس گاڑیوں کا جلا دیا گیا، پنجاب میں الیکشن کے لیے 5 لاکھ 54 ہزار سیکیورٹی اہلکار درکار ہوں گے، اگر اس وقت الیکشن ہوئے تو صرف 77 ہزار کی نفری دستیاب ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp