حکمران جماعت مسلم لیگ ن اور اس کی اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان پنجاب میں پاور شیئرنگ کے فارمولے پر سیاسی کشمکش شدت اختیار کرگئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ن لیگ اور پیپلز پارٹی آمنے سامنے، صہیب بھرتھ کا ندیم افضل چن کیخلاف قانونی چارہ جوئی کا فیصلہ
دونوں جماعتوں کی جانب سے قائم کی گئی پاور شیئرنگ کمیٹی کی میٹنگز پچھلے 8 ماہ سے معطل ہیں حالانکہ ابتدائی معاہدے کے تحت ہر ماہ باقاعدہ اجلاس کا انعقاد طے ہوا تھا۔
پچھلے سال 10 دسمبر کو دونوں جماعتوں کی پہلی باضابطہ ملاقات ہوئی تھی جو بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو گئی۔
اس کے بعد کمیٹی کے 5 اجلاس ہو چکے ہیں جن میں نئی نہروں کی تعمیر، پولیس کی ضلعی سطح پر کوآرڈینیشن، افسران کی تقرریوں اور ترقیاتی فنڈز کی تقسیم جیسے اہم ایشوز زیر بحث آئے۔
آخری میٹنگ اپریل2025 میں ہوئی تھی جس میں آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور اور ایڈیشنل چیف سیکریٹری احمد رضا سرور بھی شریک تھے۔
مزید پڑھیے: وفاقی وزرا کی صدر زرداری سے اہم ملاقات، پیپلز پارٹی اور ن لیگ بیان بازی روکنے پر متفق
پیپلزپارٹی وسطی پنجاب کے جنرل سیکریٹری حسن مرتضیٰ نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ن لیگ کے کمیٹی ممبران ہمارے مطالبات تسلیم کرتے ہیں لیکن عملدرآمد نہیں ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ مریم نواز پنجاب میں پاور شیئرنگ فارمولے پر چلنے کو تیار نہیں دکھائی دیتیں۔
حسن مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ گزشتہ 8 ماہ سے کوئی اجلاس نہیں ہوا حالانکہ طے تھا کہ ماہانہ میٹنگز ہوں گی۔
حسن مرتضیٰ نے مزید بتایا کہ کمیٹی کا اجلاس نہ ہونے کی وجہ بھی واضح نہیں کی جا رہی۔ پنجاب اسمبلی میں پارلیمانی پارٹی کو دیا گیا ایڈیشنل سیکریٹری احمد رضا سرور کو ہٹا دیا گیا جبکہ یوسف رضا گیلانی کے بیٹوں سے سیکیورٹی واپس لے لی گئی۔
انہوں نے کہا کہ ایسی کارروائیاں اختلافات بڑھاتی ہیں، کم نہیں کرتیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ دنوں سیلاب آیا تو پنجاب حکومت کی جانب سے پیپلزپارٹی کو نشانہ بنایا جاتا رہا۔
کچھ عرصہ قبل پی پی پی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو بریف کیا گیا کہ پاور شیئرنگ کمیٹی کے فیصلوں پر عملدرآمد نہیں ہو رہا۔
بلاول بھٹو نے شدید ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ن لیگ کی اعلیٰ قیادت سے دوبارہ بات ہوگی۔
حسن مرتضیٰ نے بتایا کہ بلاول بھٹو، وزیر اعلیٰ مریم نواز کے رویے سے شدید نالاں ہیں۔
مزید پڑھیں: ن لیگ اور پیپلزپارٹی میں کشیدگی کم نہ ہوسکی، پنجاب اور سندھ حکومت کے ترجمان آمنے سامنے
پیپلزپارٹی کے پارلیمانی لیڈر علی حیدر گیلانی، کچھ عرصہ پہلے وی نیوز کو بتایا تھا کہ تحریری معاہدے کے باوجود ن لیگ خصوصاً ملتان اور رحیم یار خان جیسے اضلاع میں منتقلیوں اور پوسٹنگز پر پیچھے ہٹ رہی ہے۔
پاور شئیرنگ فارمولا پر عمل ہونے پر ن لیگ کا موقف کیا ہے؟
مسلم لیگ ن کی قیادت نے پی پی پی کے مطالبات کو ‘غیر معقول اور غیر عملی’ قرار دیا ہے۔ ن لیگ کے ایک سینیئر رہنما نے کہا کہ ہم اتحاد کی پاسداری کر رہے ہیں لیکن پنجاب کی انتظامیہ کو کمزور کرنے والے مطالبات قبول نہیں۔
یہ بھی پڑھیے: ن لیگ اور پیپلزپارٹی میں کشیدگی کم نہ ہوسکی، پنجاب اور سندھ حکومت کے ترجمان آمنے سامنے
پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے کچھ روز قبل میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ پی پی پی ہماری اتحادی ہے لیکن ان کی بعض مطالبات صوبے کی مجموعی ترقی کے منافی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے سنہ 2024 میں ایک معاہدہ کیا تھا جس میں ترقیاتی فنڈز کی 30 فیصد شیئرنگ، یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کی سرچ کمیٹی میں نمائندگی اور ضلعی ڈویلپمنٹ کمیٹیوں میں شمولیت شامل تھی۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اس پر عمل جاری ہے پیپلزپارٹی کے ساتھ جو معاملات طے گئے تھے ان پر عمل ہورہا ہے۔
عظمیٰ بخاری نے مزید کہا تھا کہ مریم نواز کی حکومت پنجاب کی عوام کی خدمت پر فوکس کر رہی ہے نہ کہ سیاسی دباؤ پر۔
مزید پڑھیں: سیاسی کشیدگی: مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کا افہام و تفہیم کے ذریعے مسائل حل کرنے پر اتفاق
سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق ن لیگ کی طرف سے اس طرح پاور شیئرنگ فارمولے کے معاملات میں فقدان رہا تو آنے والے دنوں میں پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے سیاسی اتحاد کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔












