دنیا میں ملیریا کی صورتحال پر ڈبلیو ایچ او کی تازہ رپورٹ کے مطابق مچھر کے ذریعے منتقل ہونے والی یہ قابل علاج اور قابل انسداد بیماری اب بھی عالمی صحت کا بڑا مسئلہ بنی ہوئی ہے، جو ہر سال لاکھوں افراد کی جان لے لیتی ہے۔ سب سے زیادہ متاثر ہونے والوں میں بچے اور حاملہ خواتین شامل ہیں، جن میں بڑی تعداد ذیلی صحارا افریقہ سے ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مچھروں کو ملیریا سے بچانے کے لیے دوا ڈھونڈ لی گئی، آپ بھی چکرا گئے نا!
رپورٹ کے مطابق گزشتہ 25 برسوں میں انسداد ملیریا اقدامات سے تقریباً ایک کروڑ 40 لاکھ زندگیاں بچائی گئیں اور 47 ممالک کو ملیریا فری قرار دیا جا چکا ہے۔ اس کے باوجود صرف 2024 میں 28 کروڑ سے زائد کیسز سامنے آئے جبکہ اس بیماری سے چھ لاکھ اموات ہوئیں۔ ان میں 95 فیصد مریضوں کا تعلق افریقہ کے 11 ممالک سے تھا۔
ادویات کے خلاف جراثیمی مزاحمت میں اضافہ
ڈبلیو ایچ او نے خبردار کیا ہے کہ جراثیموں کی ادویات کے خلاف مزاحمت ملیریا کے خاتمے کی بڑی رکاوٹ بنتی جا رہی ہے۔ آٹھ ممالک میں ملیریا کی دواؤں، خصوصاً آرٹیمیسنن کے خلاف مزاحمت کی تصدیق یا شبہ ظاہر کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں تجویز کیا گیا ہے کہ کسی ایک دوا پر انحصار کم کیا جائے اور بیماری کی نگرانی کے نظام کو مضبوط بنایا جائے۔
وسائل کی کمی اور پھیلاؤ کا بڑھتا خدشہ
افریقہ میں جاری تنازعات، موسمیاتی عدم مساوات اور کمزور صحت کے ڈھانچے ملیریا سے نمٹنے کی کوششوں کو متاثر کر رہے ہیں۔ 2024 میں اس بیماری کے خلاف صرف 3.9 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی، جو ڈبلیو ایچ او کے مقرر کردہ ہدف کے نصف سے بھی کم ہے۔ ترقیاتی امداد میں کمی کی وجہ سے بھی انسداد ملیریا اقدامات متاثر ہوئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ملیریا سے کیسے محفوظ رہا جاسکتا ہے؟ علامات اور علاج کیا ہے؟
رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ اگر ادویات کی مزاحمت اور بیماری کے پھیلاؤ پر قابو پانے کیلئے بڑے پیمانے پر وسائل فراہم نہ کیے گئے تو صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔
نئی ادویات اور جرات مندانہ سرمایہ کاری کی ضرورت
میڈیسن فار ملیریا وینچر کے چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر مارٹن فچیٹ نے کہا کہ ضروری اقدامات نہ کیے گئے تو ملیریا قابل علاج بیماری نہیں رہے گا۔ ان کے مطابق اس مرض کی روک تھام کیلئے نئی ادویات کی تیاری اور اختراع میں جرات مندانہ سرمایہ کاری ناگزیر ہے۔
انہوں نے زور دیا کہ اس چیلنج پر قابو پانے کیلئے عالمی اداروں، علمی حلقوں، صنعتوں، معالجین، محققین، سول سوسائٹی اور امداد فراہم کرنے والوں کو مشترکہ کوششیں کرنا ہوں گی۔














