وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے کہا کہ صوبے میں 100 کے قریب دہشتگردوں نے ریاست کے سامنے سرنڈر کیا اور یہ خوش آئند بات ہے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے یہ وڈیرا اور ان کے ساتھی 2010 میں سرنڈر ہوئے تھے، مگر 2018 میں دوبارہ پہاڑوں پر چلے گئے تھے، اب جب وہ دوبارہ آئے ہیں تو ہم نے انہیں دوبارہ گلے لگایا۔
یہ بھی پڑھیے: سوئی میں وڈیرہ نورعلی چاکرانی کا 100 سے زائد ساتھیوں سمیت ہتھیار ڈالنے کا اعلان
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ اس سال بلوچستان میں 900 واقعات ہوئے، جن میں 6 افسران سمیت 205 سیکیورٹی فورسز کے اہلکار اور 280 سویلین شہید ہوئے، آپریشنز میں 760 دہشتگرد بھی ہلاک کیے گئے۔
سرفراز بگٹی نے دعویٰ کیا کہ 8 سے 10 دہشتگرد افغان تھے، جن کی لاشیں آج بھی یہاں پڑی ہیں۔ افغانستان میں پنپنے والی دہشتگردی پوری دنیا کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچوں کو قوم پرستی کے نام پر لاحاصل جنگ میں ڈالا گیا ہے، آپ یہ جنگ تشدد کے ذریعے حاصل نہیں کرسکتے۔ بیانیوں کا مقبول ہونا اہم نہیں، ہمیں حق پر کھڑا ہونا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: بلوچستان: سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر 12 تا 14 نومبر بس سروس معطل، مسافروں کے لیے مشکلات
وزیر اعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ صوبے میں لوگ سیکیورٹی فورسز کے ساتھ کھڑے ہیں، ہمیں ریاست کو کمزور کرنے والے رویوں پر نظرثانی کرنی چاہیے۔
سرفراز بگٹی نے کہا کہ میرے دو چچازاد بھائی پاک فوج میں ہیں، ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ کا بیٹا فرانس میں پڑھ رہا ہے، اور دوسرے مقبول لیڈر کا بیٹا لندن میں ہے، لیکن ہمارے جو بیٹے یہاں ہیں اور قربانیاں دے رہے ہیں، کیا ہمیں ان کے خلاف پراپیگنڈا کرنا چاہیے؟
انہوں نے کہا کہ جو مسلح نوجوان واپس آنا چاہتے ہیں، ان کے لیے ریاست کے دروازے کھلے ہیں۔ ترقی میں عدم مساوات پورے ملک کا مسئلہ ہے، اسے تشدد کا جواز نہیں بنانا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیے: بلوچستان، ستمبر میں دہشتگردی کے واقعات میں اضافہ، حکومت امن قائم کرنے کے لیے کیا کر رہی ہے؟
وزیر اعلیٰ نے خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ آپ کے صوبے کو امن اور ترقی کی ضرورت ہے، فورسز کے خلاف بات کرنا اور ہر وقت احتجاج کرنا مناسب نہیں، انہیں اپنے کام پر توجہ دینی چاہیے۔ آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کی تائید کرتے ہوئے انہوں نے فورسز کے خلاف پراپیگنڈے کی مذمت کی۔
سرفراز بگٹی نے کہا کہ بلوچستان میں صرف انٹیلی جنس آپریشنز ہو رہے ہیں، بڑے پیمانے پر آپریشن نہیں ہو رہا۔ دہشتگردوں کو معافی دے کر جیلوں سے چھوڑا گیا، جس سے وہ دوبارہ ریاست پر حملہ آور ہوئے۔














