اس دور میں گوگل کا استعمال بچے، بڑے، جوان اور بوڑھے سب ہی یکساں طور پر کرتے ہیں لیکن اس پر دستیاب سہولیات کے بارے میں لوگوں کا خیال ہے کہ یہ کمپنی نے کسی ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے کیا ہوگا یا خود باخود ہو گیا ہوگا جبکہ ایسا ہر گز نہیں ہے۔
اب گوگل میپ کی ہی مثال لے لیں۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ گوگل میپ آپ کو مقامات کے بارے میں درست معلومات خود سے دیتا ہے؟ ایسا ہر گز نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کام کے لیے گوگل کے پاس دنیا بھر کے 20 کروڑ رضاکار ہیں جو اپنے اپنے علاقوں میں رہتے ہوئے مقامات، راستوں، کاروبار اور تفریحی مقامات کے بارے میں تصاویر کے ساتھ معلومات فراہم کرتے ہیں۔ یہ کام کیسے ہوتا ہے اور کون کون کر سکتا ہے اور گوگل اس کے بدلے میں کچھ دیتا بھی ہے یا نہیں یہ سب کچھ جانتے ہیں پاکستان میں موجود گوگل رضاکاروں سے۔
کاشف مصیدی مقامی دسویں 10 کے گوگل گائیڈ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دنیا میں 20 کروڑ کے قریب گوگل گائیڈز ہیں اور ان میں 50 موڈریٹرز بھی شامل ہیں جن میں سے ایک وہ خود ہیں۔ گوگل میپ پر اپڈیٹ ہونے والی چیزوں سے متعلق لوگوں کا تصور یہ ہے کہ جیسے یہ گوگل خود کر رہا ہے جبکہ ایسا نہیں ہے۔ آپ کہیں جا رہے ہوں اور آپ کو گوگل پر اس جگہ سے متعلق تصاویر کے ساتھ اگر معلومات مل رہی ہوں تو وہ کسی نہ کسی گوگل گائیڈ نے اپڈیٹ کی ہوتی ہیں۔
کیا گوگل اپنے گائیڈز کو معاوضہ دیتا ہے؟
کاشف کہتے ہیں کہ یہ گوگل انہیں اس کام کا کوئی معاوضہ نہیں دیتا بلکہ وہ یہ کام اس جذبے کے تحت کرتے ہیں کہ لوگ اس سے مستفید ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ’جمعہ کو میری چھٹی ہوتی ہے تو میں اپنے علاقہ میں نکل جاتا ہوں اور وہاں چھوٹا بڑا کاروبار گوگل میپ پر اپڈیٹ کردیتا ہوں جس سے مقامی تاجروں کو فائدہ ہوتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کبھی وہ اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر کسی نئی جگہ کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں یا کسی تاریخی مقام کو نئی تصاویر کے ساتھ گوگل میپ پر اپڈیٹ کردیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان تاریخی مقامات سے بھرا پڑا ہے جنہیں گوگل پر اپڈیٹ کرنے سے ملک سے باہر موجود لوگوں کو پاکستان کے بارے میں آگاہی ملتی ہے۔
نئی جگہوں کی نشاندہی کبھی کبھار مغموم بھی کردیتی ہے
کاشف کا کہنا تھا کہ انہوں نے بلوچستان میں ایک نئے ساحل کو گوگل میپ پر اپڈیٹ کیا اور اس وقت وہاں کوئی موجود نہیں تھا لیکن جب اگلی بار وہاں کا چکر لگا تو وہاں کافی تعداد میں لوگ موجود تھے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ لوگ جہاں بھی جائیں وہاں صفائی کا خیال رکھا کریں کیوں کہ اس مذکورہ مقام پر گندگی کے ڈھیر دیکھ کر اب انہیں لگتا ہے کہ وہ اس کی معلومات شیئر نہ کرتے تو ہی اچھا ہوتا اور اس ساحل کی خوبصورتی محفوظ رہتی۔
گوگل لیول 10 کے لوکل گائیڈ رضوان شاہ اپنے کام اور تجربات کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ آج کل سب کا زیادہ تر انحصار گوگل میپ پر ہوگیا ہے۔ مثال کے طور پر جیسے آن لائن ٹیکسیز کا استعمال ہو یا کسی نئی جگہ کے بارے میں راستے کی تلاش ہو یا دیگر معلومات لینی ہوں لوگوں کی پہلی ترجیح اب گوگل میپ ہی ہے۔
رضوان شاہ بتاتے ہیں کہ شروع میں تو انہوں نے گوگل میپ اپنے ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کیا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس بات کا اندازہ ہوا کہ بہت سی جگہیں گوگل میپ پر موجود نہیں ہیں اس لیے انہوں نے ان مقامات کو گوگل میپ پر ڈالنا شروع کیا اور پھر اس کام میں انہیں مزہ آنے لگا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہزاروں گوگل گائیڈز ہیں اور صرف وہ اب تک ہزار سے زیادہ مقامات کو گوگل میں ڈال چکے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ گوگل میپ کا سب سے زیادہ فائدہ کورونا وبا کے دوران اٹھایا گیا اور لوگوں نے گھروں سے کام کرنا شروع کیا۔
گوگل میپ پر لوکیشن ڈالنے کا طریقہ
گوگل میپ میں لوکیشن ڈالنے کا طریقہ بتاتے ہوئے رضوان نے کہا کہ یہ بہت آسان عمل ہے اور کوئی بھی کر سکتا ہے، گوگل میپ کھولنے کے بعد کنٹریبیوشن کا آپشن جیسے ہی دباتے ہیں ایک نئی ونڈو کھلتی ہے جس میں نئی جگہ سے متعلق معلومات کا ایک فارم پر کرنا ہوتا ہے اس کے بعد اہم مرحلہ پن لوکیشن ڈالنے کا ہوتا ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ جگہ کوئی اور ہوتی ہے اور لوکیشن کوئی اور کیوں کہ پن لوکیشن ڈالنے والے نے جگہ کی میپ پر ٹھیک طرح نشاندہی نہیں کی ہوتی لیکن ہم ایسی غلط پن لوکیشن کو ٹھیک بھی کرتے ہیں۔
گوگل میپ کے لیول 10 گائڈ محمد بلال جو کہ پی ایچ ڈی بھی کر رہے ہیں کہتے ہیں کہ وہ تعلیم اور روزگار کے ساتھ ساتھ اپنے شوق کے لیے یہ کام بھی کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’گوگل میپ سمیت گوگل کے دوسرے پلیٹ فارمز کے لیے ہماری کنٹریبیوشنز ہیں اور یہ سب کرنے کا صرف اور صرف مقصد یہ ہے کہ ہمارے کام سے لوگوں کو کچھ نہ کچھ فائدہ پہنچ سکے‘۔
محمد بلال نے بتایا کہ اس کام کا انہیں گوگل یا کسی بھی ادارے کی طرف سے کوئی معاوضہ نہیں ملتا۔ انہوں نے کہا کہ ’مجھے اپنے ہر اس کام سے خوشی ملتی ہے جس سے کمیونٹی کو فائدہ ہو اور ہم تھوڑے سے تھے اب بڑھتے جارہے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ کراچی سے گلگت بلتستان تک ہم نے دیکھا ہے کہ بہت ساری مشہور جگہوں کو گوگل پر ڈالا گیا تھا لیکن ان سے متصل بہت ساری ایسی جگہیں بھی تھیں جنہیں بھی میپ ہر ہونا چاہیے تھا لیکن وہ نہیں تھیں تو ان جگہوں کو ہم نے گوگل میپ پر ڈالا۔‘
محمد بلال نے کہ انہوں نے بلوچستان کے ایک خوبصورت ساحل کو بھی میپ پر ایڈ کیا اور اس وقت وہاں کوئی نہیں تھا لیکن ایڈ کرنے کے بعد جب وہ دوبارہ وہاں گئے تو وہ جگہ ایک ٹورسٹ اسپاٹ کا روپ دھار چکی تھی۔
انہوں نے کہا کہ بیرونی ممالک میں ٹیکنالوجی کا استعمال زیادہ بھی ہے اور مثبت بھی یہی وجہ ہے کہ وہاں کی زیادہ چیزیں نہ صرف سامنے آتی ہیں بلکہ سراہی بھی جاتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہ اکہ ’آپ کسی بھی پلیٹ فارم پر اگر اپنے کاروبار کی تشہیر کرنا چاہتے ہوں تو اس کے لے پیسہ خرچ ہوتا ہے جبکہ گوگل میپ پر آپ یہ کام مفت میں کرسکتے ہیں۔