پشاور آرمی پبلک اسکول حملہ: جب 6 غیر ملکی دہشتگردوں نے معصوم بچوں کو نشانہ بنایا

منگل 16 دسمبر 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

16 دسمبر 2014 کو پشاور میں قیامت کا سماں تھا، فضا چیخ و پکار، سسکیوں اور بے بسی سے بھری ہوئی تھی، اور خون میں لت پت بچوں کو اسپتال منتقل کیا جا رہا تھا۔

شہر میں زندگی معمول کے مطابق رواں دواں تھی، لیکن صبح 10 بج کر 30 منٹ کے قریب پشاور کے ورسک روڈ پر واقع آرمی پبلک اسکول میں حملے کی اطلاع ملی۔

مزید پڑھیں: اے پی ایس اٹیک میں بیٹا کھونے والی باہمت بیوہ جو اسلام آباد میں پکوڑے بیچتی ہیں

عدنان طارق پشاور کے سینیئر کرائم رپورٹر ہیں، ان کے مطابق 16 دسمبر 2014 کا دن ان کی زندگی کا غمگین ترین دن تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ان کا دفتر اسکول سے کچھ فاصلے پر شامی روڈ پر واقع ہے، اور سب سے پہلے ایک دوست نے فون پر آرمی پبلک اسکول میں فائرنگ کی اطلاع دی۔

وہ کہتے ہیں: ’2014 میں دہشتگردی عروج پر تھی، دھماکے اور فائرنگ کے واقعات معمول بن چکے تھے، لیکن آرمی پبلک اسکول کا واقعہ سیاہ ترین دن تھا۔‘

حملہ کیسے ہوا اور دہشتگرد اسکول میں کیسے داخل ہوئے؟

آرمی پبلک اسکول ہائی سیکیورٹی علاقے پشاور کینٹ میں واقع ہے، پولیس کے مطابق حملہ آور جن کی تعداد 6 تھی، اسکول کے عقب سے دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہوئے۔

انکوائری رپورٹ کے مطابق مرکزی ہال میں بچوں کو میڈیکل تربیت دی جا رہی تھی، اسی دوران دہشتگرد اسکول میں داخل ہوئے اور مرکزی ہال سمیت کلاس رومز میں بچوں کو نشانہ بنایا۔

پولیس کے مطابق آرمی پبلک اسکول حملے میں 144 بچے شہید ہوئے، جبکہ تمام 6 حملہ آور ہلاک کردیے گئے۔

’ہر طرف چیخ و پکار اور بے بسی تھی‘

عدنان طارق بتاتے ہیں کہ جونہی وہ ورسک روڈ پہنچے تو حالات یکسر مختلف تھے۔ فائرنگ کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں، جبکہ سیکیورٹی فورسز کی گاڑیاں اور ایمبولینسوں کے سائرن پورے علاقے میں گونج رہے تھے، ہر طرف چیخ و پکار اور بے بسی کا عالم تھا۔

انہوں نے بتایا کہ ابتدا میں صرف فائرنگ کی اطلاع ملی، لیکن کچھ ہی دیر بعد اندازہ ہوا کہ یہ ایک بڑا دہشتگرد حملہ ہے اور دہشتگرد اسکول کے اندر داخل ہو چکے ہیں۔

عدنان طارق کے مطابق حملے کے کچھ دیر بعد زخمی بچوں کو ریسکیو کرکے اسپتال منتقل کرنے کا عمل شروع ہوا۔ ’جب ایک ایمبولینس میں خون میں لت پت ایک معصوم بچے کو دیکھا تو حملے کی شدت کا اندازہ ہوا۔‘

انہوں نے بتایا کہ بڑی تعداد میں والدین اور پشاور کے شہری ورسک روڈ پہنچ چکے تھے۔ ’میں نے اس دن والدین کی بے بسی دیکھی، وہ اپنے بچوں کے بارے میں جاننے کے لیے بے تاب تھے، مگر انہیں اندر ہونے والی تباہی کا اندازہ نہیں تھا۔‘

عدنان کے مطابق جب اس وقت کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے بتایا کہ 100 سے زیادہ بچے شہید ہو چکے ہیں تو والدین پر قیامت ٹوٹ پڑی، اور اسپتالوں میں اپنے بچوں کی لاشیں تلاش کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

’عینی شاہدین کی گواہی‘

میجر (ر) ارشد محمود، وائس چیئرمین کنٹونمنٹ بورڈ بھی اس واقعے کے عینی شاہد ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ حملے کے بعد شدید افراتفری پھیل گئی تھی اور عسکری افسران فوری طور پر جائے وقوعہ پر پہنچ گئے تھے۔ ان کے مطابق سیکیورٹی اہلکاروں نے کارروائی کرتے ہوئے دہشتگردوں کو ہلاک کر دیا۔

’ہماری زندگی 16 دسمبر 2014 پر ہی رک گئی ہے‘

پشاور کے آرمی پبلک اسکول حملے کو 11 سال بیت چکے ہیں، لیکن شہدا کے والدین کا غم آج بھی تازہ ہے۔ والدین کا کہنا ہے کہ ان کی زندگی 16 دسمبر 2014 پر ہی رک گئی ہے۔

وہ ہر ماہ اکٹھے ہوتے ہیں تاکہ اپنے غم کو کچھ کم کر سکیں۔ ’ہم ہر ماہ کسی ایک شہید کے گھر جمع ہوتے ہیں، مائیں اپنے بچوں کو یاد کر کے روتی ہیں اور دل ہلکا کرتی ہیں۔‘

والدین آج بھی اپنے شہید بچوں کی سالگرہ باقاعدگی سے مناتے ہیں اور مل کر کیک کاٹتے ہیں۔

شاہانہ اجون شہید اسفند یار کی والدہ ہیں۔ ان کے مطابق ان اجتماعات کا مقصد ایک دوسرے کے آنسو پونچھنا اور غم بانٹنا ہے۔ انہوں نے کہا: ’ہم نے اپنے ننھے، معصوم بچوں کو کھویا ہے، ہمارا غم ایک ہے۔‘

’انصاف کے لیے اب بھی عدالتوں کے چکر لگا رہے ہیں‘

آرمی پبلک اسکول کے شہدا کے والدین آج بھی تحقیقات پر عملدرآمد کے منتظر ہیں، جس کے لیے وہ بدستور عدالتوں کے چکر لگا رہے ہیں۔

شہید حسان کے والد ڈاکٹر امین خان نے بتایا کہ ابتدا میں ان کے مطالبات تسلیم نہیں کیے جا رہے تھے، جس کے باعث انہیں سڑکوں پر احتجاج کرنا پڑا۔

انہوں نے بتایا کہ 4 سال کی مسلسل جدوجہد کے بعد 2018 میں اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے والدین کی درخواست پر جوڈیشل انکوائری کا حکم دیا۔ اس انکوائری کمیشن کی سربراہی پشاور ہائی کورٹ کے جج جسٹس محمد ابراہیم خان نے کی۔

ڈاکٹر امین خان کے مطابق جوڈیشل انکوائری تو مکمل ہوئی، لیکن اس پر عملدرآمد نہیں ہوا، اور یہ کیس کئی برسوں سے سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔

مزید پڑھیں: سانحہ اے پی ایس، شہدا کو خراج عقیدت پیش کرنے کی قرارداد قومی اسمبلی میں متفقہ طور پر منظور

والدین کا مطالبہ ہے کہ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ پر عملدرآمد کیا جائے اور غفلت برتنے والوں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ انصاف کی جدوجہد میں کئی والدین دنیا سے رخصت ہو گئے، لیکن انہیں انصاف نہیں ملا۔

والدین نے واضح کیاکہ وہ انصاف کے حصول کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

بیٹی کی تحویل کے معاملے پر معروف اداکارہ کا مبینہ اغوا، شوہر کے خلاف مقدمہ درج

عمران خان کے بیٹوں کا اسکائی نیوز کو انٹرویو، ‘ویڈیو بیان میں کونسی بات جھوٹ ہے؟’

این ڈی ایم اے کی 27ویں امدادی کھیپ فلسطین روانہ، 100 ٹن سامان بھیجا گیا

یورپی پارلیمنٹ کی منظوری، سعودی عرب اور یورپی یونین کے تعلقات میں نئی شراکت داری کی راہ ہموار

شدید دھند کے دوران غیر ضروری سفر سے گریز کی ہدایت، ملک بھر میں اسموگ الرٹ جاری

ویڈیو

پنجاب یونیورسٹی: ’پشتون کلچر ڈے‘ پر پاکستان کی ثقافتوں کا رنگا رنگ مظاہرہ

پاکستان کی نمائندگی کرنے والے 4 بین الاقوامی فٹبالر بھائی مزدوری کرنے پر مجبور

فیض حمید کے بعد اگلا نمبر کس کا؟ وی ٹاک میں اہم خبریں سامنے آگئیں

کالم / تجزیہ

سینٹرل ایشیا کے لینڈ لاک ملکوں کی پاکستان اور افغانستان سے جڑی ترقی

بہار میں مسلمان خاتون کا نقاب نوچا جانا محض اتفاق نہیں

سقوط ڈھاکہ: جاوید ہاشمی جھوٹ بول رہے ہیں