پاکستان میں سولر توانائی کے شعبے میں تیزی سے ہونے والی پیش رفت نے مالی سال 2017 سے مالی سال 2025 کے دوران 17 سے 19 ارب ڈالر کی نجی سرمایہ کاری کو متحرک کیا ہے جس نے توانائی، معیشت اور روزگار کے شعبوں میں نمایاں اثرات مرتب کیے ہیں۔
تھنک ٹینک رینیوایبلز فرسٹ کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق صرف مالی سال 2025 میں سولر توانائی کے ذریعے 5 سے 6 ارب ڈالر کی نجی سرمایہ کاری سامنے آئی جو ملک میں نجی سرمائے کے مضبوط ترین ذرائع میں شمار ہوتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کیا پاکستان میں سولر پینل کی مینوفیکچرنگ ممکن ہے؟
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سولر توانائی کے بڑھتے ہوئے استعمال کے نتیجے میں 3 لاکھ براہِ راست اور 2 لاکھ بالواسطہ روزگار کے مواقع پیدا ہوئے جس سے ای پی سی (انجینئرنگ، پروکیورمنٹ اینڈ کنسٹرکشن)، تنصیب، خدماتی صنعتوں، سپلائی چین اور دیہی علاقوں میں بجلی کی فراہمی کو تقویت ملی۔
رپورٹ کے مطابق سولر فوٹو وولٹک (پی وی) کی بڑے پیمانے پر تنصیب نہ صرف فوسل ایندھن پر انحصار کم کر رہی ہے بلکہ قومی بجلی کے نظام پر دباؤ گھٹانے، نجی سرمایہ کاری کے فروغ، روزگار کی تخلیق اور گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی کا باعث بھی بن رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: چینی کمپنی پاکستان میں سولر پینل فیکٹری لگانے کے لیے تیار؟
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مالی سال 2025 کے دوران سولر پی وی کے استعمال سے اندازاً 3 کروڑ 50 لاکھ میٹرک ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مساوی اخراج سے بچاؤ ممکن ہوا جبکہ مالی سال 2017 سے اب تک مجموعی طور پر 8 کروڑ 30 لاکھ میٹرک ٹن سے زائد اخراج سے بچاؤ کیا جا چکا ہے۔ موجودہ رفتار برقرار رہی تو پاکستان مالی سال 2030 تک سالانہ 5 کروڑ میٹرک ٹن اخراج میں کمی حاصل کر سکتا ہے جو موجودہ پاور سیکٹر کے مجموعی اخراج سے بھی زیادہ ہے۔
تحقیق کے مطابق پاکستان مالی سال 2025 میں چینی سولر پینلز کا دنیا کا دوسرا بڑا درآمد کنندہ بن کر ابھرا جہاں 17.9 گیگاواٹ سولر پینلز درآمد کیے گئے جبکہ مجموعی درآمدات 50 گیگاواٹ سے تجاوز کر چکی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: کیا درجہ حرارت میں کمی سولر پینلز کی قیمتیں نیچے لے آئی؟
رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ بڑھتے ہوئے بجلی کے نرخوں اور مہنگے درآمدی ایندھن کے باعث گھریلو صارفین، زرعی شعبہ اور صنعتیں تیزی سے سولر توانائی کی جانب منتقل ہو رہی ہیں کیونکہ یہ مالی اعتبار سے زیادہ موزوں ثابت ہو رہی ہے۔
رینیوایبلز فرسٹ کے توانائی تجزیہ کار محمد شیراز کے مطابق پاکستان کو درپیش معاشی اور روزگار کے چیلنجز کے باوجود سولر توانائی کا فروغ مختلف شعبوں میں مثبت اثرات مرتب کر رہا ہے جن میں تھرمل پاور پر انحصار میں کمی، نئی معاشی سرگرمیوں کا آغاز اور روزگار کے مواقع کی تخلیق شامل ہیں۔ یہ پیش رفت توانائی کے شعبے میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ پائیدار معاشی ترقی کی بنیاد بھی فراہم کر رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستانی سولر صارفین کا رجحان آف گرڈ سولر سسٹم کی طرف کیوں بڑھ رہا ہے؟
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگر ملک میں تقریباً 32 گیگاواٹ سولر پی وی نصب ہو جائے تو سالانہ 42 ٹیرا واٹ آور بجلی پیدا کی جا سکتی ہے جو موجودہ گرڈ فروخت کا 38 فیصد بنتی ہے۔ اس تیز رفتار اضافے کے باعث روایتی پاور پلانٹس خصوصاً درآمدی ایندھن پر چلنے والے منصوبوں کا کردار کمزور ہو رہا ہے۔
مطالعے کے مطابق درآمدی کوئلے پر چلنے والے بجلی گھروں کی استعداد استعمال مالی سال 2022 میں 78 فیصد سے کم ہو کر مالی سال 2024 میں 11 فیصد رہ گئی ہے۔ اسی طرح آر ایل این جی پاور پلانٹس کی استعداد 51 فیصد سے گھٹ کر 31 فیصد ہو گئی جبکہ مقامی کوئلے پر انحصار میں بھی کمی دیکھی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سولر صارفین کے لیے سرپرائز، نئے میٹر کی شرط کیوں لگائی گئی؟
رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ پاکستان کے پاور سیکٹر کی پالیسیوں اور منصوبہ بندی کے فریم ورک کو تقسیم شدہ توانائی کے تیزی سے بڑھتے ہوئے رجحان سے ہم آہنگ کیا جائے۔ اس ضمن میں گرڈ کی جدید کاری، ٹیرف اور مارکیٹ اصلاحات، تقسیم شدہ بجلی پیدا کرنے، توانائی ذخیرہ کرنے اور لچکدار توانائی وسائل کے لیے واضح پالیسیوں اور ریگولیٹری اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔














