بھارتی ریاست بہار کے دارالحکومت پٹنہ میں پیش آنے والا واقعہ، جہاں وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے ایک سرکاری تقریب کے دوران ایک مسلم خاتون ڈاکٹر کا نقاب ہٹانے کی کوشش کی، محض ایک غیر محتاط یا نادانستہ حرکت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ واقعہ دراصل اس گہرے سماجی اور سیاسی رجحان کی عکاسی کرتا ہے جس کے تحت بھارت میں مسلمانوں کی مذہبی شناخت کو مسلسل سوالیہ نشان بنایا جا رہا ہے۔
یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب نصرت پروین نامی مسلم خاتون ڈاکٹر، اپنی پیشہ ورانہ قابلیت اور اہلیت کے اعتراف کے طور پر تقرر نامہ وصول کرنے اسٹیج پر آئیں۔ وہ مکمل برقعہ اور نقاب میں تھیں، جو ان کا آئینی، مذہبی اور شخصی حق ہے۔ تاہم ایک اعلیٰ ریاستی منصب پر فائز شخص کا عوامی سطح پر اس ذاتی حق میں مداخلت کرنا نہ صرف اخلاقی دیوالیہ پن کی علامت ہے بلکہ یہ انسانی وقار اور مذہبی آزادی پر براہِ راست حملہ بھی ہے۔

انسانی حقوق کے عالمی اصول اس بات پر متفق ہیں کہ لباس کا انتخاب فرد کی ذاتی آزادی میں شامل ہے۔ کسی خاتون کا نقاب زبردستی ہٹانا، چاہے کسی بھی نیت سے کیا جائے، اس کے جسمانی اور ذہنی وقار کی پامالی کے مترادف ہے۔ یہ عمل طاقت کے عدم توازن، صنفی جبر اور مذہبی عدم برداشت کی واضح مثال ہے، خاص طور پر ایسے ملک میں جو خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہتا ہے۔
یہی وہ رویہ ہے جسے مبصرین تہذیبی دہشتگردی اور اسلاموفوبیا سے تعبیر کرتے ہیں، یعنی ایک مخصوص مذہب اور ثقافت کو ریاستی طاقت، سماجی دباؤ یا عوامی تضحیک کے ذریعے کمزور کرنا۔ جب ایسے اقدامات حکومتی نمائندوں کے ذریعے سامنے آئیں تو یہ معاملہ محض سماجی تعصب نہیں رہتا بلکہ ریاستی سرپرستی کے سوالات کو جنم دیتا ہے۔
یہاں یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ تہذیبی دہشتگردی سے مراد کیا ہے، یہ وہ عمل ہے جس میں ریاست یا اکثریتی سماج کسی مخصوص مذہب یا ثقافت کو رفتہ رفتہ ناقابلِ قبول بنانے کی کوشش کرے۔ بھارت میں گزشتہ برسوں کے دوران حجاب پر پابندیاں، داڑھی اور اذان پر اعتراضات، مدارس کے خلاف کارروائیاں اور اب نقاب کو نشانہ بنانا اسی سلسلے کی کڑیاں دکھائی دیتی ہیں۔ یہ سب اقدامات ایک ایسے بیانیے کو تقویت دیتے ہیں جس میں مسلمانوں کی شناخت کو مسئلہ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔
یہ واقعہ اس حقیقت کو بھی اجاگر کرتا ہے کہ بھارت میں اسلاموفوبیا اب محض انتہا پسند عناصر تک محدود نہیں رہا بلکہ ریاستی رویوں اور حکومتی شخصیات کے طرزِ عمل میں بھی نمایاں ہوچکا ہے۔ پروان چڑھتا آر ایس ایس اور ہندوتوا کا نظریہ ریاست پر غلبہ حاصل کرچکا ہے یہی وجہ ہے بار بار اس طرح کے واقعات رونما ہوتے ہیں اور بھارت میں موجود مسلمانوں سمیت تمام اقلیتیں اس کا نشانہ بن رہی ہیں۔
اگر بھارت واقعی اپنے آئینی اصولوں پر قائم رہنا چاہتا ہے تو اسے تمام اقلیتوں، بالخصوص مسلمان (جو بڑی تعداد میں موجود ہیں) کے مذہبی اور شخصی حقوق کا غیر مشروط احترام کرنا ہوگا۔ تاریخ بارہا یہ ثابت کرچکی ہے کہ جب ریاستیں شہریوں کے لباس، عقیدے اور شناخت کو کنٹرول کرنے لگتی ہیں تو وہ صرف اقلیتوں کو نہیں کچلتیں بلکہ اپنی جمہوری روح بھی آہستہ آہستہ کھو بیٹھتی ہیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔














