مشیر نجکاری کمیشن محمد علی نے وزیر اطلاعات عطا تارڑ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت نے نجکاری کے حالیہ عمل میں شفافیت، قومی مفاد اور کمپنی کی بہتری کو اولین ترجیح دی، تاکہ نہ صرف سرکاری خزانے کو فائدہ ہو بلکہ ادارے میں نئی سرمایہ کاری بھی یقینی بنائی جا سکے۔
یہ بھی پڑھیں:پی آئی اے میں بہت زیادہ پوٹینشل، 100 فیصد شیئرز خریدنا چاہتے تھے: عارف حبیب
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مشیر نجکاری کمیشن محمد علی نے کہا کہ اس ٹرانزیکشن میں حکومت کے لیے سب سے مشکل مرحلہ یہ تھا کہ ایک طرف بہتر قیمت حاصل کی جائے اور دوسری جانب یہ بھی یقینی بنایا جائے کہ نیا خریدار کمپنی میں سرمایہ کاری کرے اور اسے نظرانداز نہ کرے۔ ان کے مطابق حکومت کے سامنے دو بنیادی اہداف تھے اور دونوں کو حاصل کرنے کے لیے ٹرانزیکشن کی اسٹرکچرنگ اسی انداز میں کی گئی۔

محمد علی نے بتایا کہ اس معاہدے کے تحت حکومت کو براہ راست 55 ارب روپے حاصل ہوں گے، جبکہ کمپنی کے اثاثوں کی ایک بڑی ویلیو 45 ارب روپے بنتی ہے۔ اس کے علاوہ 125 ارب روپے وہ رقم ہے جو براہ راست پی آئی اے کی ضروریات اور بہتری کے لیے کمپنی میں لگائی جائے گی۔ یوں مجموعی طور پر پی آئی اے کی ویلیوایشن 180 ارب روپے بنتی ہے۔
انہوں نے نجکاری کمیشن کی ٹیم کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے کہا کہ کمیشن نے اس پورے عمل میں غیر معمولی محنت کی اور گزشتہ دو سے تین روز کے دوران مکمل تعاون فراہم کیا۔ محمد علی کا کہنا تھا کہ ٹیم کے سیٹ اپ اور میڈیا سے ملاقاتوں کے بعد حکومت کو یقین ہے کہ اس معاملے پر کسی قسم کی غیر ضروری الجھن یا پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
یہ بھی پڑھیں:پی آئی اے کی نجکاری پر خیبرپختونخوا حکومت کا شدید ردعمل، وفاقی حکومت سے معافی مانگنے کا مطالبہ
مشیر نجکاری کمیشن نے میڈیا کے کردار کی بھی تعریف کی اور کہا کہ میڈیا نے اس پورے عمل میں ذمہ دارانہ رپورٹنگ کی اور حکومت کو بھرپور سپورٹ فراہم کی، جس پر وہ شکر گزار ہیں۔
پس منظر اور قیام
پی آئی اے کا آغاز ایک نجی ادارے کے طور پر ہوا تھا، جس کے بعد 1955 میں پوسٹ انڈیپنڈنس پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (پی آئی اے) کا باضابطہ قیام عمل میں آیا۔ 1943 میں اس کی ابتدائی سرگرمیاں شروع ہوئیں جبکہ 1955 میں باقاعدہ آپریشنز کا آغاز کیا گیا۔
موجودہ آپریشن اور مسافر تعداد
آج پی آئی اے سالانہ تقریباً 40 لاکھ مسافروں کو سفری سہولت فراہم کر رہی ہے۔ اس وقت ادارے میں مجموعی طور پر 6,700 ملازمین کام کر رہے ہیں۔ پانچ سال قبل پی آئی اے میں تقریباً ساڑھے آٹھ ہزار ملازمین تھے، تاہم حکومت کی جانب سے اوور اسٹافنگ میں نمایاں کمی کی گئی ہے۔ موجودہ صورتحال میں ملازمین کی تعداد میں اوور اسٹافنگ نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔

روٹس، ڈیسٹینیشنز اور لینڈنگ رائٹس
اس وقت پی آئی اے 30 ڈیسٹینیشنز کو سروس فراہم کر رہی ہے۔ مجموعی طور پر 78 ممالک کے لیے اس کے پاس فلائٹ آپریٹنگ رائٹس موجود ہیں جبکہ 97 ممالک کے ساتھ ایئر سروسز ایگریمنٹس ہیں۔ پی آئی اے کا سب سے بڑا اثاثہ اس کے لینڈنگ رائٹس ہیں۔ مختلف ممالک کے ایئرپورٹس پر پی آئی اے کے پاس 17 سے زائد سلاٹس ہیں، اور کئی ایئرپورٹس پر ایک سے زیادہ لینڈنگ رائٹس موجود ہیں۔
فلیٹ کی صورتحال اور طیاروں کی عمر
اس وقت پی آئی اے کے پاس کاغذات میں مجموعی طور پر تقریباً 33 طیارے موجود ہیں، تاہم عملی طور پر صرف 17 سے 18 طیارے آپریشنل ہیں۔ ہفتہ وار پی آئی اے تقریباً 240 پروازیں آپریٹ کرتی ہے۔ طیاروں کی اوسط عمر خاصی زیادہ ہو چکی ہے۔ 33 طیاروں میں سے 24 ایسے ہیں جو 2010 سے پہلے کے ہیں اور ان کی عمر تقریباً 25 سال کے قریب ہے۔ 2010 سے 2013 کے درمیان کے طیاروں کی عمر تقریباً 12 سے 15 سال بنتی ہے جبکہ صرف دو طیارے 2017 کے ہیں۔
سوشل میڈیا پر زیرِ بحث بیانیہ
سوشل میڈیا پر یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ پی آئی اے کو چند ارب روپے میں بیچ دیا گیا ہے، جو حقیقت کے برعکس ہے۔ واضح طور پر بتایا جا چکا ہے کہ حکومت کو 55 ارب روپے کی ویلیو حاصل ہو رہی ہے۔ یہ کہنا کہ پی آئی اے کو ایک نئے طیارے کی قیمت پر فروخت کر دیا گیا، درست تاثر نہیں دیتا کیونکہ پی آئی اے کے بیشتر طیارے پرانے ہیں اور ان کی مارکیٹ ویلیو کم ہے، جو پہلے ہی پی آئی اے کی فنانشل اسٹیٹمنٹس میں ظاہر ہے۔

اونرشپ اور لیز پر موجود طیارے
پی آئی اے کے آپریشنل 18 طیاروں میں سے 12 لیز پر ہیں جبکہ صرف 6 طیارے پی آئی اے کی ملکیت ہیں۔ پی آئی اے تمام طیاروں کی مالک نہیں بلکہ زیادہ تر طیارے لیز پر حاصل کیے گئے ہیں۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا کے ذریعے ایک غلط تاثر پیدا کیا جا رہا ہے۔
مینٹیننس اور عملہ
پی آئی اے کے پاس مینٹیننس کے لیے تقریباً ایک ہزار افراد پر مشتمل اسٹاف موجود ہے، جو فلیٹ کی دیکھ بھال پر مامور ہے۔
ڈومیسٹک سطح پر پی آئی اے کا مارکیٹ شیئر تقریباً 30 فیصد ہے، جبکہ باقی 70 فیصد دیگر ایئرلائنز کے پاس ہے۔ ماضی میں کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے روٹس پر پی آئی اے کا مارکیٹ شیئر 60 سے 70 فیصد تک تھا، جو وقت کے ساتھ کم ہوا ہے اور اب اسے دوبارہ بڑھانے کی ضرورت ہے۔
انٹرنیشنل آپریشن
انٹرنیشنل سطح پر پی آئی اے 2024 میں 18 ڈیسٹینیشنز کے لیے پروازیں چلا رہی ہے۔ پیرس اور برطانیہ کے روٹس دوبارہ بحال ہو چکے ہیں، تاہم پی آئی اے کا بڑا مسافر ٹریفک مڈل ایسٹ کی جانب ہے۔ اس لحاظ سے پی آئی اے اس وقت مکمل گلوبل ایئرلائن کے طور پر آپریٹ نہیں کر رہی۔

تاریخی کارکردگی اور زوال
1989 تک پی آئی اے کی کارکردگی بہتر رہی، تاہم اس کے بعد رفتہ رفتہ زوال کا آغاز ہوا۔ 1990 میں لسٹنگ اور پوسٹل کارپوریٹائزیشن کی گئی اور نجکاری کی بات ہوئی، مگر اس پر سنجیدگی سے عمل نہ ہو سکا۔ 2005 میں ایک اور کوشش کی گئی اور بعد ازاں 2024-25 میں نجکاری کا عمل دوبارہ سامنے آیا۔
فلیٹ اور نیٹ ورک کا موازنہ
2001 میں پی آئی اے کے پاس 50 طیارے تھے، جن میں بوئنگ 737 اور ایئر بس 310 شامل تھے، اور ان میں سے کئی طیاروں کی عمر 10 سال سے کم تھی۔ اس وقت پی آئی اے تقریباً 40 لوکیشنز کو سروس فراہم کرتی تھی، جبکہ آج یہ تعداد کم ہو کر 30 رہ گئی ہے۔
مالی صورتحال اور منفی ایکویٹی
2015 میں پی آئی اے کی مجموعی منفی ایکویٹی 213 ارب روپے تک پہنچ چکی تھی، جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ نقصانات کا سلسلہ 2015 سے پہلے ہی شروع ہو چکا تھا۔ 2024 میں پی آئی اے کے مجموعی نقصانات 700 ارب روپے تک پہنچ چکے تھے۔ اگر 2015 سے 2024 تک کا جائزہ لیا جائے تو گزشتہ 10 سال میں پی آئی اے کو مجموعی طور پر 500 ارب روپے کا نقصان ہوا۔
یہ 500 ارب روپے کا خسارہ حکومتِ پاکستان نے پورا کیا، یعنی یہ رقم پاکستانی عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے ادا کی گئی۔ یہ نقصان براہِ راست قومی خزانے پر بوجھ بنا رہا، جو سب کے سامنے ہے۔
ریونیو اور خسارے کا جائزہ
2015 کے بعد چارٹ میں جو گرین رنگ میں دکھایا گیا ہے، وہ پی آئی اے کا ریونیو ہے۔ اگر غور کیا جائے تو 2020 میں کووڈ کے بعد پی آئی اے کے ریونیو میں اضافہ ہوا، کیونکہ ایوی ایشن سیکٹر نے کووڈ کے بعد ریکوری کی اور کاروبار دوبارہ بحال ہوا۔
اس کے باوجود 2015 سے ہر سال پی آئی اے خسارے میں رہی۔ مختلف برسوں میں یہ خسارے 35 ارب، 45 ارب، 51 ارب، 67 ارب، 53 ارب، 35 ارب، 50 ارب، 88 ارب اور 105 ارب روپے تک رہے۔
نجکاری سے حاصل ہونے والا فائدہ
آج حکومت کو نجکاری کے عمل کے ذریعے 55 ارب روپے مل رہے ہیں، لیکن اس سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ آئندہ حکومت کو یہ مسلسل نقصانات برداشت نہیں کرنا پڑیں گے۔ یہی نجکاری کا اصل فائدہ ہے۔
انتظامی اور آپریشنل مسائل
پی آئی اے کرونک لاسز میں مبتلا تھی۔ اس کا کاسٹ اور ریونیو ماڈل مکمل طور پر غیر منطقی اور غیر مؤثر ہو چکا تھا۔ ادارے میں شدید اوور اسٹافنگ تھی، فلیٹ کا استعمال غیر مؤثر تھا، اور یہ تمام نقصانات حکومتِ پاکستان مسلسل فنڈ کر رہی تھی۔













