قیام کے بعد سے ہی اس مملکت خدا داد نے خود کو ایک نازک موڑ پر پایا۔ پچھتر برس اس موہوم سی امید میں گزر گئے کہ کہیں تو سیدھا راستہ شروع ہو گا، لیکن اب وہ لو بھی پھڑپھڑانے لگی ہے۔ شاید اس نازک موڑ کا فیصلہ کن مرحلہ اب شروع ہوا ہے، جہاں سامنے سے آتی ٹریفک دکھائی نہیں دیتی اور ڈرائیور بے یقینی کی کیفیت میں گاڑی کے سٹیئرنگ ویل کو یوں گھماتا ہے کہ بایاں پاؤں بریک کے ساتھ چپکا رہے۔
حال ہی میں ایک سیاسی جماعت کے لیڈر کو گرفتار کیا گیا اور نتیجے میں وہ حالات دکھائی دیے کہ جیسے تئیس کروڑ انسانوں کے اس بیابان میں جنگل کا قانوں بھی باقی نہیں رہا۔ چند ہزار زومبی سڑکوں پر منڈلانے لگے اور زندگی جیسے تھم سی گئی۔ سکول بند، بچوں کے امتحان ملتوی اور انٹرنیٹ سروس معطل اور سڑکوں پہ جہالت کا رقص جاری۔
کسی سیاسی جماعت کا کوئی رہنما گرفتار ہو، کسی مذہبی تنظیم کا کوئی احتجاج ہو، کسی تنظیم کو کسی کی ناموس کی حفاظت کرنی ہو یا سرکار تک کسی بھی شعبے سے وابستہ لوگوں نے اپنے مطالبات پہنچانے ہوں، اس سب کا حل اس قوم نے توڑ پھوڑ میں ڈھونڈ رکھا ہے۔
سرکاری گاڑیاں، سرکاری املاک کسی سیاسی پارٹی یا کسی سیاسی لیڈر کی ملکیت نہیں ہیں، یہ سب ریاست اور عوام کا اثاثہ ہیں، جن پہ عوام کا اپنا ہی پیسہ لگا ہے لیکن اپنے لیڈر کی اقتداء میں اندھے ہجوم کو اس سب سے کوئی سروکار نہیں۔ جو آئین و قانون کی حکمرانی کا مطالبہ لیے سڑکوں پر دندنا رہے ہیں، انھوں نے قانوں کے چوغے کو لاٹھیوں پر چڑھا رکھا ہے۔
کسی عام و خاص کی گاڑی ہو یا نجی پراپرٹی پر حملے کرنا، توڑ پھوڑ کرنا، کہاں کی انسانیت ہے۔ ہر چیز کا حل اس ہجوم کی فہم کے مطابق تشدد میں ہے۔اس اندھیرے میں اطلاعات تک رسائی کا بنیادی انسانی حق یوں پامال ہو رہا ہے کہ حق و صداقت کے پیامبر کسی چینل پر دیکھ لیں، ہر کوئی اپنی اپنی سیاسی وابستگی کا باجا بجا رہا ہے۔ کہیں بے قابو ہجوم کی مدح سرائی ہے تو دوسری طرف اس گرفتاری کی خوشی میں مٹھائیاں تقسیم ہو رہی ہیں۔
معاشرے میں بڑھتے تشدد کے اسباب میں سے ایک تو معاشرے میں دن بہ دن بڑھتی خلیج ہے۔ ان حالات میں بھی لوگ مخالفین کا مذاق بنا رہے ہیں۔ اس زومبی نفسیات کا علاج مزاح میں پوشیدہ نہیں ہے۔ تقسیم در تقسیم کا یہ عالم ہے کہ اب یہ جنگ اسمبلیوں سے نکل کر گھروں تک پہنچ گئی ہے۔
شدت پسندی کا زہر یوں رگوں میں سرائیت کر گیا ہے کہ اب ہماری اجتماعی نفسیات کا حصہ بن چکا ہے۔ فریقین ایک دوسرے کی جان لینے پر تلے ہیں اور انھیں اکسانے والے خدا جانے کس طرف جانا چاہتے ہیں۔ نہ کسی ادارے کی حرمت باقی ہے اور نہ ہی کوئی درمیانی راستہ نکالنے پر آمادہ ہے۔
کچھ سال پہلے ایک مذہبی تنظیم کے احتجاج کے دوران جب سرکاری املاک پہ حملے کیے گئے تو جوابی کار روائی میں سات لوگ ہلاک ہوئے اور تنظیم کے لیڈر اگلے ہی دن ڈیل کر کے اپنے، اپنے گھروں میں بیٹھے تھے۔
آج اور کل ہونے والے تمام واقعات میں بھی تمام غریب کارکن ہی شامل رہے۔ پارٹی کے تمام سرکردہ رہنما محفوظ مقامات سے ہدایات دیتے رہے، گرفتاریاں اور سزا اب بھی غریب کارکنوں کے حصے میں ہی آئیں گی۔ رہنما حضرات رسمی گرفتاریوں کے بعد بھی کچھ عرصے میں باہر ہوں گے۔
اب بھی جو لوگ انقلاب لانے کو نکلے ہیں صرف اپنے گھرانوں کے لیے وبال لانے کے درپے ہیں۔ تقسیم در تقسیم سے انقلاب نہیں آیا کرتا، وقتی ہیجان اور بس کچھ اکھاڑ پچھاڑ ہوتی ہے، اس کے سوا اور کچھ نہیں۔
قوم نامی ہجوم کے رہنما سرعت سے اپنا اعتبار کھوتے چلے جا رہے ہیں۔ سچ بتانے والے خود فریبی کا شکار ہیں یا اپنے تعصبات و مفادات کی پوجا میں مصروف۔ ہر سو بے یقینی اور مایوسی کا اندھیرا ہے اور کوئی راہ سجھائی نہیں دیتی۔ اتحاد و یگانگت کی گاڑی ہچکولے کھا رہی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے راستے کی سختی اور صعوبت اس نازک موڑ سے گزرتی سواری کو لے ڈوبے گی۔ شاید اب اس سے لا تعلقی ہی واحد حل ہے۔