معروف فکاہیہ شاعر سید ضمیر جعفری کی زندگی کا سب سے بڑا المیہ یہ تھا کہ ان کی سنجیدہ شاعری بھی کمال کی تھی مگر اسے کبھی قبولیت عام نصیب نہیں ہوئی۔ ایسا بھی ہوا کہ استاد نے مشاعرے میں سنجیدہ غزل سے آغاز کیا اور لوگ ہنس، ہنس کر لوٹ پوٹ ہو گئے۔ ضمیر بظاہر اس بات پر بدگمان نہیں ہوتے تھے بس سادگی سے کہہ دیتے کہ ”بھئی جو قبول ہو گیا وہ ٹھیک ہے“۔ لیکن دل ہی دل میں اس بات سے خوفزدہ بھی تھے شاید اسی وجہ سے انہوں نے اپنی سنجیدہ شاعری کی کتاب کا نام ہی ”سنجیدہ کلام“ رکھ دیا کہ مبادا لوگ اس پر بھی ٹھٹھے مارتے پھریں۔ اب اسے شومئی قسمت ہی کہہ سکتے ہیں کہ اس کتاب کو کوئی بھی نہیں جانتا، نہ ہی ضمیر جعفری کے فن اور شخصیت پر تحقیق کرنے والوں نے سنجدہ شاعری کی اس باکمال کتاب کا اپنے مقالوں میں کہیں تذکرہ کیا۔ لیکن اگر اب آپ کو کہیں سے یہ کتاب دستیاب ہو جائے تو ضمیر کا اک نیا رخ دیکھنا آپ کو نصیب ہو گا۔
ضلع جہلم کے چک عبد الخالق سے تعلق رکھنے والے ضمیر جعفری نے کئی میدان ہنر آزمائے۔ صحافت کے بحر زخار سے بھی ان کا گزر ہوا، فوج کی نوکری بھی کی، جنگیں بھی لڑیں، افواج پاکستان کے محکمہ تعلقات عامہ میں خدمات بھی سرانجام دیں، سی ڈی اے میں بھی ڈائریکٹر رہے، ٹی وی کے پروگراموں میں میزبانی بھی کی، سفرنامے لکھے، افسانے کو مشق سخن کیا، ناول تحریر کیے، کئی دھائیوں تک ہر روز ڈائری لکھی مگر شاعری اور پھر فکاہیہ شاعری ہی ان کا تعارف رہی۔
شمائل ضمیر پر نگاہ ڈالیں تو قد تو لانبا تھا ہی مگر فربہی کے عالم سے ان کی قدآوری محسوس نہیں ہوتی تھی۔ سر بالوں سے کہیں آگے نکل کر ناجائز تجاوزات کی طرح در انداز ہو رہا تھا۔ آواز بیٹھی بیٹھی تھی۔ طبیعت میں رعونت نام کو نہیں تھی۔ لہجہ ہمیشہ فدویانہ رہا۔ نشست پر ایسے بیٹھتے کہ پھر دیر تک اٹھنے کا امکان نظر نہیں آتا تھا۔ اس سارے سراپے میں کوئی بھی ایسی چیز نہیں تھی جو ان کو محفل میں ممتاز کرتی لیکن اس کے باوجود ان کے پاس ایک ایسی کنجی تھی کہ وہ خاموش رہ کر نیم کشا آنکھوں سے ساری محفل پر چھائے رہتے۔ وہ کنجی ان کی مسکراہٹ تھی۔ کسی فقرے پر، اچھے شعر پر یا کسی ”کثیفے“ کی داد دیتے ہوئے ان کے چہرے پر وہ بچوں والی مسکراہٹ ہوتی کہ بنا کچھ کہے وہ میلہ لوٹ لیتے تھے۔
بہت کم احباب کو اس بات کا ادراک ہے کہ سید ضمیر جعفری جب لہر میں ہوتے تو شعر ترنم سے سناتے تھے۔ سانس ٹوٹ ٹوٹ جاتا، سر کہیں اپنی ہی کھرج میں گم ہو جاتا مگر ترنم جاری رہتا۔ لیکن خود شناسی کا عالم یہ تھا ہر دفعہ مترنم ہونے پہلے حاضرین سے یہ ضرور کہتے تھے کہ ”حضرات میں جانتا ہوں کہ برصغیر پاک وہند میں سب سے برا ترنم خاکسار کا ہے لیکن پھر بھی ایک غزل ترنم کے ساتھ پیش خدمت ہے“ ضمیر کے ترنم پر اگر فقرہ چست کرنا ہو تو ان کی لازوال نظم ”پرانی موٹر“ کا ہی ایک بند ان کے ترنم پر صادق آتا ہے کہ
بہ طرزِ عاشقانہ دوڑ کر٬ بے ہوش ہو جانا
بہ رنگِ دلبرانہ جھانک کر٬ روپوش ہوجانا
بزرگوں کی طرح کچھ کھانس کر خاموش ہوجانا
مسلمانوں کی صورت دفعتا پر جوش ہوجانا
قدم رکھنے سے پہلے لغزشِ مستانہ رکھتی ہے
کہ ہر فرلانگ پر اپنا مسافر خانہ رکھتی ہے
فقرہ چست کرنے میں بھی سیدی ضمیر کو کمال حاصل تھا۔ بارہا دیکھا گیا کہ فقرہ چست کرنے کے بعد صاحب فقرہ خود ہی لوٹ پوٹ ہو جاتے۔ احتراما دوسروں کو بھی ایسا ہی کرنا پڑتا۔ ضمیر صاحب اپنے ایک قریبی رفیق کے ساتھ عمرے پر گئے۔ خانہ خدا کی سعادت نصیب ہوئی تو احباب پر رقت طاری تھی۔ عمرہ ختم ہوا تو ائرپورٹ پر اس زمانے کی معروف اداکارہ انجمن سے خوشگوار ملاقات ہو گئی۔ اس حسین ملاقات کے بعد ضمیر صاحب رفیق خاص کے کان میں فرمانے لگے ”مبارک ہو عمرہ قبول ہو گیا ہے“۔
اساتذہ کہتے ہیں کہ طنز اور مزاح میں فرق بہت عمیق ہوتا ہے۔ کسی شئے یا فرد کو نشانہ بنا کر لوگوں کا ہنسانا آسان ہوتا ہے۔ لیکن مزاح اور خالص مزاح تخلیق کرنا دشوار کام ہے۔ ایسا مزاح جس میں کسی کی تضحیک کا پہلو نہ ہو، جس میں تمسخر نہ اڑایا جائے، جس میں کسی کی تحقیر نہ کی جائے۔ شہنشاہ ظرافت ضمیر جعفری خالص مزاح کے آدمی تھی۔ اگر آپ اس بات کی تصدیق چاہیں تو ان کی معروف نظم ”کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے“ پڑھ لیں۔ لطف آجائے گا۔ ایک بند میں اس مسافر کا حال ملاحظہ ہو جو اس پر ہجوم بس میں سفر کر رہا ہے
جو کالر تھا گردن میں، ’لر‘ رہ گیا ہے
ٹماٹر کے تھیلے میں ’ٹر‘ رہ گیا ہے
خدا جانے مرغا کدھر رہ گیا ہے
بغل میں تو بس ایک پر رہ گیا ہے
کوئی کام ہم سے اگر ہو رہا ہے
کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے
ضمیر جعفری بہادر آدمی بھی تھے۔ باطل سے دبنے والے قطعاً نہیں تھے۔ اس بات کی دلیل یہ ہے ایک دفعہ انہوں نے ایک پرہجوم مشاعرے میں یہ شعر سنایا
میری بیوی قبر میں لیٹی ہے جس ہنگام سے
وہ بھی ہے آرام سے اور میں بھی ہوں آرام سے
دہشتناک امر یہ ہے کہ ضمیر جعفری جب لہک لہک کر یہ شعر حاضرین کو سن رہے تھے اس وقت بیگم ضمیر حاضرین کی صف اول میں تشریف رکھتی تھیں اور خشمگیں نگاہوں سے شاعر کو دیکھ رہی تھیں
شاعری کا امتحان زمانہ ہوتا ہے۔ کچھ لوگ وقتی طور پر اپنا اثر چھوڑتے ہیں مگر آنے والے زمانے ان کی سوچ کو قبول نہیں کرتے۔ ضمیر کی شاعری زمانوں کی حد کو پار کر گئی ہے۔ انہوں نے جو مسائل انتہائی لطیف ہیرائے میں بیان کیے وہ آج بھی ابن آدم کو اسی شدت سے درپیش ہیں۔ شعر ملاحظہ ہو
شوق سے نورِ نظر، لختِ جگر پیدا کرو
ظالمو، تھوڑی سی گندم بھی مگر پیدا کرو
اب جب کہ ضمیر جعفری کو ہم سے بچھڑے کئی برس گزر چکے ہیں، عشاق ضمیر آج بھی عجیب دوراہے پر کھڑے ہوئے ہیں۔ سمجھ نہیں آ رہی کہ اس بات کا غم منائیں کہ اب اس دور میں وہ لہجے کی سلاست، انداز کی ذہانت، لحن کی شگفتگی، اسلوب کی شائستگی اور آہنگ کی شستگی میسر نہیں یا پھر اس موقعے پر بھی ان کا کلام پڑھیں اور ٹھٹھے لگائیں۔ آسان نسخہ یہ ہے کہ اگر میسر ہو تو ”ولائتی زعفران، بدیسی مزاح یا پھر مافی الضمیر“ کا نسخہ نکالیں، پڑھیں اور سر دھنیں اور اس بات کا یقین کر لیں کہ ضمیر اپنے متبسم لفظوں میں زندہ ہے اور زندہ رہے گا۔