3 رکنی آڈیو لیکس کمیشن کے سربراہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے اٹارنی جنرل آف پاکستان کو سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کے حکمنامے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا قانون میں کمیشن بنانے کے لیے وفاقی حکومت کو چیف جسٹس کی اجازت ضروری نہیں اور نہ ہی سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے یہ حکمنامہ کالعدم قرار دیا ہے۔
سپریم کورٹ بینچ کے پاکستان کے بطور وفاق تذکرے پر تبصرہ کرتے ہوئے جسٹس فائز عیسٰی نے کہا کہ وفاق کا مطلب تو یہ ہے کہ صوبائی ہائیکورٹس آزاد ہیں وہ سپریم کورٹ کی ماتحت عدالتیں نہیں، ضلعی عدالتیں، ہائیکورٹس کی ماتحت ضرور ہیں، سپریم کورٹ 26 مئی کے حکمنامے پر بات کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا سپریم کورٹ بار ایسوسی نے آرٹیکل 184(3) کے تحت درخواست دائر کی، جس کے عوامی مفاد کے مقدمات سنے جاتے ہیں، انہوں نے کہا کہ ججوں کی دیانتداری کے بارے میں لوگوں کو پتا چلے کیا یہ مفاد عامہ نہیں، اسی طرح سے عدلیہ کے ادارے پر لوگوں کا اعتبار قائم ہوگا۔
جسٹس فائز عیسٰی نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواست پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ درخواست گزار نے فریقین کو ایڈوانس نوٹس دینا ہوتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجھے سماعت مقرر ہونے کے بعد نوٹس ملا۔ اس سے پہلے مجھے زبانی طور پر فون پر آگاہ کیا گیا کہ آپ پیش ہوں۔ آڈیو لیکس تحقیقاتی کمیشن نے اپنے دوسرے اجلاس میں سپریم کورٹ کل کے حکمنامے پر تنقید کی۔ جسٹس فائز عیسٰی نے کہا کہ کل کی کارروائی میں میرے کیس کا ذکر کیا گیا جس کے حقائق یکسر مختلف تھے، میری اہلیہ نے جائیدادوں کی ملکیت سے انکار نہیں کیا تھا، میری اہلیہ کا کیس یہ تھا جو شخص ہمارے خلاف سپریم کورٹ میں کھڑا ہے، اسے کسی نے کھڑا کیا ہے، یہ مناسب بات ہے کم از کم جسٹس منصور علی شاہ کا فیصلہ کم از کم پورا تو پڑھنا چاہیے، جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ دوسروں کی عزت ہے تو ہماری بھی عزت ہونی چاہیے، زیادہ نہیں کم از کم تھوڑی بہت تو ہماری عزت ہونی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ایک گواہ خواجہ طارق رحیم نے ہمیں ای میل کی، جس میں انہوں نے ای میل میں لکھا جب آپ خواتین کے بیانات ریکارڈ کرنے لاہور جائیں گے میں وہیں آجاؤں گا، خواجہ طارق رحیم نے کہا طبعی مسائل کے سبب اسلام آباد میں پیش نہیں ہو سکتا، انہوں نے کہا کہ حکومت نے مجھے ایک ٹاسک دیا اس لیے ہم بیٹھے ہیں، ججز کا حلف پڑھیں، ہم آئین و قانون کے تابع ہیں، سپریم کورٹ کل کے حکمنامے میں نجی زندگی کے حقوق بارے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پرائیویسی ہمیشہ گھر کی ہوتی ہے، کسی کے گھر میں جھانکا نہیں جا سکتا، باہر سڑکوں پر جو سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہیں کیا یہ بھی پرائیویسی کے خلاف ہیں؟
انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا بینک کے سی سی ٹی وی کیمرے میں قتل کی واردات آجائے تو کیا فوٹیج استعمال نہیں ہوسکتی؟ انہوں نے کہا کیا مجھے کوئی مرضی کے فیصلے کے لیے رقم آفر کرے تو کیا یہ گفتگو بھی پرائیویسی میں آئے گی؟ انہوں نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل شعیب شاہین کے بارے میں کہا کہ وہ روزانہ ٹی وی پر بیٹھ کر وکلا پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی خلاف ورزی کرتے ہیں، وہ ہمیں قانون سکھانے آ گئے ہیں،کوئی بات نہیں سکھائیں ہم تو روزانہ قانون سیکھتے ہیں، ایک طرف پرائیویسی کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف خود اپنی آڈیوز پر ٹالک شو میں بیٹھتے ہیں، ہم ٹالک شو میں جواب تو نہیں دے سکتے، بطور وکیل ہم بھی اس لیے آرڈر لیتے تھے اگلے روز جاکر متعلقہ عدالت کو آگاہ کرتے تھے۔
کل کے حکمنامہ میں ہیکرز اور ٹوئٹر سے متعلق قاضی فائز عیسٰی نے استفسار کیا کہ یہ ٹوئٹر کیا ہے اور ٹوئٹر ہینڈل کیا ہے؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ٹوئٹر ایک سافٹ ویئر ہے اور ہیکرز کے بارے میں میڈیا سے پوچھ لیں۔
جسٹس قاضی فائزعیسٰی نے کہا کہ کمیشن انکوائری ایکٹ کے تحت بنا، قانون کے تحت ہمیں ایک ذمہ داری سونپی گئی۔ ہو سکتا ہے کہ کمیشن کو مشکل ذمہ داری دی گئی ہو۔کیا قانون اور اپنے حلف کے تحت مشکل ٹاسک سے انکار کر سکتے ہیں؟ انہوں نے کہا یہ ذمہ داری ہمارے لیے ذہنی تکلیف کا باعث ہو سکتی ہے۔
جسٹس قاضی فائزعیسٰی نے کہا کہ میں الجھن کا شکار ہوں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے ماتحت عدلیہ اور انتظامیہ پر لاگو ہوتے ہیں لیکن سپریم کورٹ پر لاگو نہیں ہوتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وکیل اپنا کوڈ آف کنڈکٹ بھی پڑھیں۔ ایک وکیل مؤکل سے جج کے نام پر 10 لاکھ روپے مانگ لے۔ کیا ایسی گفتگو پر بھی پرائویسی کے استحقاق کا اطلاق ہوگا۔ ہم بھی بطور وکیل پریکٹس کرتے تھے۔ ہم حکم امتناع لیکر متعلقہ عدالت کو جاکر آگاہ کرتے تھے ٹالک شو میں بیٹھ کر تبصرہ نہیں کرتے تھے۔ جسٹس فائز عیسی نے کہا کہ وکیل خود اپنے کوڈ پر عمل نہیں کرتے۔
انہوں نے کہا کہ سچ کو کیوں سامنے آنے سے روکا جا رہا ہے، انہوں نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل شعیب شاہین کی غیر حاضری پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اعتراض کمیشن میں آ کر بھی کیا جا سکتا تھا، انہوں نے کہا کہ ہم نے واضح کیا تھا کسی کے حقوق متاثر کریں گے نہ کسی کو ملزم بنائیں گے، قرآن شریف کے مطابق سچ ہمیشہ جھوٹ کو مٹا دیتا ہے۔
جسٹس قاضی فائزعیسٰی نے کہا کہ کمیشن کے ایک رکن کوئٹہ سے رات 9 بجے پہنچے ہیں، کمیشن کو حکم امتناع سے آگاہ کیا گیا نہ پہلے نوٹس دیا گیا، کمیشن کو بتایا جاتا تو جج صاحب کو کوئٹہ سے بلاتے ہی نہ، انہوں نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کل آپ نے سپریم کورٹ بینچ کو قانونی نکات کیوں نہیں بتائے؟
انہوں نے پوچھا کہ بینچ میں چیف جسٹس پر اعتراض کیوں کیا تھا؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا تحقیق طلب ایک آڈیو چیف جسٹس کی خوشدآمن کی بھی ہے۔ کل کے حکمنامے پر تبصرہ کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائزعیسٰی نے کہا کہ عدالت نے لکھا کہ حکومت نے یکطرفہ کارروائی کی ہے، انہوں نے کہا کہ حکومت ہمیشہ یکطرفہ ہی چلتی ہے، جسٹس فائزعیسٰی نے کہا کہ سمجھ نہیں آتا کہ شعبہ قانون کو کیا گیا ہے، سب سے آسان کام ہے کہ جج پر الزام لگا دو، ججز کے پاس فوج ہوتی نہ پولیس صرف اخلاقی اتھارٹی ہوتی ہے، بعد ازاں کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے تک کمیشن کی کارروائی روک دی۔