اداکارہ نازش جہانگیر نے کہا ہے کہ سڑکوں پر عورت مارچ کے جلسے کرنا فیمنزم نہیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، جن کے حق کے لیے ہم سڑک پر آواز اٹھا رہے ہیں ان کے پاس تو یہ باتیں پہنچ ہی نہیں رہیں، وہ تو کسی گاؤں میں آلو کی بھجیا یا دال روٹی بنا رہی ہوں گی، البتہ عورت مارچ خلع کی شرح میں اضافے کا سبب ہے۔
نازش جہانگیر نے ایک پوڈکاسٹ میں اپنے کیریئر، فیمنزم اور عورت مارچ کے حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’میں بہت زیادہ فیمنسٹ نہیں ہوں، میں برابری میں یقین رکھتی ہوں، میں آج بھی ڈٹ کر کہتی ہوں کہ ہر روتی عورت سچی نہیں ہوتی، لیکن اگر لڑنا ہے تو ان کے لیے لڑو جن کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے، جو دور دراز کسی کچے علاقے میں بیٹھی ہیں اگر وہاں تک پہنچ گئے تو میں عورت مارچ کو بھی مان لوں گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے یہ نہیں کہہ رہی کہ میں کسی عورت کے ساتھ نہیں کھڑی ہو رہی، لیکن اگر کسی مرد کے ساتھ بھی زیادتی ہو رہی ہے تو میں اس کے ساتھ بھی کھڑی ہوں‘۔
نازش جہانگیر کا کہنا تھا ’ شاید میں غلط ہو سکتی ہوں لیکن عورت مارچ کے بعد خلع کی شرح میں اضافہ ہوا ہے، میں یہ نہیں کہہ رہی کہ لڑکیوں کو ظلم سہنا چاہیے۔ آجکل یہ ہوتا ہے کہ شادی ہوئی اور ایک ماہ بعد طلاق ہو گئی، طلاق کی وجہ بہت سی چھوٹی چھوٹی باتیں اور گھریلو جھگڑے ہوتے ہیں۔اگر آپ سمجھتے ہیں طلاق کی یہ وجہ ہے تو علیحدگی کے بعد آنسو نہ بہائیں، مضبوط رہ کر بچوں کی تنہا پرورش کریں۔
اداکارہ نے مزید کہا کہ ’میں یہ نہیں کہہ رہی کہ ہر عورت فیمنزم کا غلط استعمال کرتی ہے لیکن بہت سی خواتین اس کا فائدہ اٹھاتی ہیں، جہاں عورت کے حقوق ہیں وہاں مردوں کے بھی حقوق ہیں، جہاں عورت کے ساتھ زیادتی پر شور ہو رہا ہے وہاں مرد کے ساتھ زیادتی پر بھی شور ہونا چاہیے۔‘