نئے این آر او کے نکات کیا ہیں؟

بدھ 7 جون 2023
author image

بتول راجپوت

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

24 ستمبر، 2007 کو پاکستان مسلم لیگ ق اور پی پی پی کے وفود کی ملاقات ہوئی۔ مسلم لیگ کے وفد کی قیادت چوہدری شجاعت حسین کر رہے تھے اور انکی ٹیم میں حامد ناصر چٹھا، سینیٹر مشاہد حسین شامل تھے۔ پی پی پی کے وفد کی قیادت مخدوم امین فہیم کر رہے تھے اور ان کے دوسرے ساتھی راجا پرویز اشرف تھے۔ تین نکاتی ایجنڈے میں پبلک آفس ہولڈرز کے لئے زر تلافی معاوضہ، تیسری دفعہ وزیراعظم اور جنرل مشرف کی وردی اتارے جانے کی شرط شامل تھی۔

پی پی پی نے تجویز دی کہ 1987 سے 1997 پبلک آفس ہولڈرز سے نقصان کی ضمانت \ انڈیمنیٹی دی جائے، جوسزایافتہ نہ ہوں۔ یہ بھی کہا گیا کہ ایسا فوری آرڈینینس کے ذریعے کیا جا سکتا ہے اور پارلیمنٹ سے باقائدہ قانون سازی بھی کی جا سکتی ہے۔ پی ایم ایل کی تجویز تھی کہ آرڈیننس پاس نہیں کیا جا سکتا لیکن اگر وزیراعظم اسمبلی کے فلور پر اعلان کر دیں تو بھی بہتر ہے ۔ دونوں پارٹیوں نے اصولی طور پر اتفاق کیا اور طریقہ کار پر مزید بات ہوئی۔

پی پی پی کا مطالبہ تھا کہ تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے پر پابندی ختم ہونی چاہیے لیکن پی ایم ایل کے مشاہد حسین سید نے ترکی ماڈل کی مثال دی کہ جب ترکی کی فوج نے طیب اردوگان کو بین کیا تھا تو انہوں نے اپنے قابل اعتماد ساتھی عبداللہ گل کو وزیراعظم بنوایا اور قانون سازی کے ذریے تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے پر پابندی کا خاتمہ کیا ۔کیونکہ اس کا سیاسی نقصان نہ صرف بینظیر بلکہ نواز شریف کو بھی ہو رہا تھا۔

چوہدری شجاعت نے پی پی پی کو اعتماد میں لیا کہ جنرل مشرف الیکشن سے پہلے وردی اتار دیں گے۔ اور کورٹ کے سامنے جو وعدہ کیا ہے پورا کیا جائے گا۔چوہدری شجاعت نے بینظیر سے گلہ کیا کہ جنرل مشرف ان کے الیکشن سے پہلے پاکستان آنے کی خواہش سے بہت مایوس ہوئے ہیں کیونکہ اس اسے نواز شریف کی بھی پاکستان واپس آنے کی راہ ہموار ہو گی ۔

‎25 ستمبر 2007 کو مذاکرات کا دوسرا دور ہوا تو شفاف الیکشن ، منفی میڈیا کیمپین کی روک تھام، فوج اور عدلیہ کے خلاف بات کرنے پرالیکشن کمیشن کی طرف سے نااہل قرار دینا جیسے امور شامل تھے۔

این آر او کی تیاری کے بعد جنرل مشرف نے چوہدری شجاعت کو کہا کہ وہ بینظیر سے دوبئی میں جا کے ملیں اور تفصیلات بتائیں لیکن جب وہ دوبئی کے لیے روانہ ہو رہے تھے تو ان کو جانے سے روک دیا گیاُ. چوہدری شجاعت کے مطابق جنرل مشرف نے انکو اندھیرے میں رکھا اور پی پی پی کے ساتھ نیا این آر او کرلیا اور انکو نئے این آر او کی تفصیلات اخبار اور ٹی وی سے ملی۔

کچھ عرصے بعد پی پی پی نے ق لیگ کو قاتل لیگ کہا اور کچھ سالوں بعد جنرل مشرف نے بھی کہا کہ کہ این آر او کر کے ان سے بہت بڑی سیاسی غلطی ہوئی۔ ہمارے ملک میں وہ کونسا معاہدہ وہ کونسی سیاسی مشاورت رہی ہے جس کے کرنے والے یہ یقین رکھتے رہے ہوں کہ جو وہ کر رہے ہیں دراصل وہی کر رہے ہیں؟

‎15 دسمبر 2017 کو جہانگیر ترین کو آرٹیکل 62(1)f کے تحت نااہل کیا گیا عمران خان بچ گئے ، ان کی اپنے ساتھی کہتے رہے کہ یہ نااہلی ایک “بیلین سینگ ایکٹ” تھا اور آج وہی جہانگیر ترین دوبارہ جہاز اڑا رہے ہیں تب بھی انہیں نے کہا تھا کہ اور پھر جہاز اڑا اور خان کے نمبر پورے کروا دیے۔

اب انکا پیسا کہاں خرچ ہوگا؟ اور کیا انہی لوگوں پہ جو خود کو بھی سیاسی طور پہ تباہ کرنے والے لیڈر کے ساتھ چلے اور پھر ڈر سے پریس کانفرنس کرنے آ گئے؟ کیا وہ ہی لوگ دوبارہ آئیں گے؟ کچھ عرصہ پہلے جہانگیر ترین جیسے لوگ ایکٹو کیوں نہیں تھے اور وہ کونسا لیڈر ڈھونڈ لیں گے؟کیا پھر کوئی ان آر او ہو رہا ہے جس کی شفافیت پر شک ہو؟

کیا نوازشریف تردید کریں گے کہ ایک دفع انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیاکہ ایک رات کے لیے تو چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو جیل جانا چاہیے۔ اس کے گواہ سابق وزیرقانون ایڈوکیٹ خالد انور ہیں۔ یہ واقع چوہدری شجاعت نے اپنی کتاب ( سچ تو یہ ہے)میں بھی لکھا ہے۔

نواز شریف نے سابق چیف جسٹس کے فون بھی ٹیپ کروائے اور بعد میں ان کو اس حوالے سے پریس کانفرس سے بھی روکا ۔کیا نواز شریف اس سب کی تردید کریں گے؟یہ کیسی جمہورہت ہے جس میں جس کے پاس طاقت ہے وہ یہ حق رکھے کہ کسی کو بھی بلیک میل کرے؟

آج وہی قاتل لیگ آصف زرداری سے بات کر رہی ہے کہ ملک کیسےبچانا ہے۔ جنرل مشرف سے سو سیٹیں مانگنے والے اور مولا نا فضل الرحمان کو وزیر اعظم کے لئے ووٹ دینے والے عمران خان کہتے ہیں کہ میں تو فوج پر باپ کی طرح تنقید کرتا ہوں۔

مستقل اپنی باتوں سے مکرنے والے، سیاسی لیڈر ہو کہ بھی ایجنسیوں کی طرح فون ٹیپ کرنے والے ججوں کو جیل میں ڈالنے کے خواب دیکھنے والے یا پھر امریکہ سے وزارت عظمہ کئ بھیک مانگنے والے یا پھر بے نظیر کو حکومت میں رہ کر بھی انصاف نا دلانے والے۔ان سب میں سے نیا آن آر او کس سے ہوا ہے اور اس میں کیا لکھا گیا ہے۔۔۔
قوم کو بتا دیں۔۔۔۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بتول راجپوت صحافی ہیں اور سچ ٹی وی پر "دی ٹاک شو" کے نام سے پروگرام کرتی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp