برطانیہ میں بڑھتی ہوئی نسل پرستی کی وجہ سے ایشیائی اور سیاہ فام شہریوں کو امتیازی سلوک کا سامنا ہے، حال ہی میں رائے عامہ کے ایک جائزے سے معلوم ہوا ہے کہ برطانیہ میں سیاہ فام اور ایشیائی باشندوں کے دو تہائی سے زائد شہریوں کو اپنی روزمرہ کی زندگی میں نسلی امتیاز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
معروف سعودی اخبار’عرب نیوز‘ نے برطانوی میڈیا کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ برطانیہ میں دو تہائی سے زیادہ ایشیائی سیاہ فام باشندوں کو نسلی امتیاز کا سامنا ہے، اگر 2025 تک اس پر قابو نہ پایا گیا تو یہ بڑھتی ہوئی نسل پرستی ملک کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگی۔
برٹش فیوچر نامی تھنک ٹینک کے ذریعے 2500 لوگوں پر مشتمل ایک سروے کرایا گیا جس میں نسل، شناخت اور تعصب پر برطانوی عوام کے رویوں کی شناخت کی گئی۔ ان 2500 لوگوں میں سے 1000 کا تعلق برطانیہ میں مقیم اقلیتی برادری سے ہے۔
سروے میں شامل 80 فیصد اقلیتی برادری نے رہنے کے لیے برطانیہ کو امریکا، جرمنی اور فرانس سے بہتر قرار دیا تاہم انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ برطانیہ میں بھی روزمرہ کی بنیاد پر نسلی امتیاز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
جب سفید فام برطانوی شرکا سے پوچھا گیا کہ کیا برطانیہ دیگر بڑے مغربی ممالک کے مقابلے میں اقلیتوں کے رہنے کے لیے بہتر جگہ ہے تو 73 فیصد نے کہا کہ یہ بیان درست ہے جبکہ 27 فیصد نے ’ناں‘ کے طور پررائے ظاہر کی۔
لیکن جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر آپ سفید فام ہیں تو کیا آپ کے لیے برطانیہ میں ’آگے بڑھنا‘ آسان ہے، 48 فیصد سفید فام برطانوی جواب دہندگان اور 60 فیصد نسلی اقلیتی شرکاء نے کہا کہ جی ہاں! دوسرے ممالک کی نسبت آسان ہے۔
مزید پڑھیں
سروے میں حصہ لینے والے نصف سے زائد شہریوں کے مطابق برطانیہ کا سیاسی اور میڈیا کلچر زیادہ تفرقہ انگیز اور منقسم ہو چکا ہے، جبکہ باقی ماندہ شہریوں نے اس بحث کو سرے سے غیر ضروری قرار دیا ہے۔
گزشتہ 25 سالوں میں نسلی مسائل پر برطانیہ کی پیشرفت پر، 68 فیصد نسلی اقلیتی شرکاء اور 71 فیصد سفید فام جواب دہندگان نے کہا کہ ملک نے اہم تبدیلیاں کی ہیں۔
تاہم، تمام جواب دہندگان کی اکثریت 64 فیصد سفید فام برطانوی اور 80 فیصد اقلیتی گروپ نے اس بیان سے اتفاق کیا کہ برطانیہ کو اگلے 25 سالوں میں بڑھتی ہوئی نسل پرستی پر بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔