پاکستان کی معاشی صورت حال بظاہر جہاں انتہائی مشکل سے دوچار ہے وہاں پاکستانی عوام کے لیے یہ خوشخبری بھی سامنے آئی ہے کہ پاکستان میں روپے کی قدر مستحکم ہوگئی ہے اور آئندہ اس میں فی الحال مزید گراؤٹ کا کوئی امکان نہیں ہے۔
بین الاقوامی کریڈٹ ایجنسی’ فِچ ریٹنگز‘ نے بلومبرگ کو بتایا ہے کہ گزشتہ سال جون سے اب تک پاکستانی روپے کی قدر میں 30 فیصد سے زیادہ کمی ہوئی ہے ، رواں سال جب جنوری میں پاکستانی حکام نے روپے کی قدر میں کمی کی تو یہ اُس وقت دنیا بھر میں سب سے کمزور ترین کرنسی کے طور پر سامنے آئی ۔
بلومبرگ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان کی قومی کرنسی کی قدر میں اس کمی کے بعد عالمی سپلائی چین میں رکاوٹوں اور دیگر معاشی پریشانیوں کے علاوہ مہنگائی میں ریکارڈ اضافہ ہوا ۔ روپے کی قدر میں کمی کے باعث حکومت اس بات پر مجبور ہوئی کہ وہ ملک میں ڈالر کی باہر منتقلی کو روکنے کے لیے لگژری اشیا کی درآمد پر فوری پابندی عائد کرے۔
عالمی کریڈٹ ایجنسی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اب پاکستان کے مرکزی بینک کے پاس موجود زرمبادلہ کے ذخائر گزشتہ ایک سال کے دوران 50 فیصد سے زیادہ کمی کے بعد رواں سال فروری کے آخر سے اس وقت تک تقریباً 4 بلین ڈالر پر مستحکم ہیں۔
عالمی کریڈٹ ایجسنی فچ کے ہانگ کانگ میں مقیم ڈائریکٹر کریسجنیس کرسٹینز نے ایک ای میل کے جواب میں بتایا ہے کہ فی الحال ہمیں پاکستانی روپے کی قدر میں مزید کمی کی کوئی توقع نہیں ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ‘گزشتہ چند مہینوں میں پاکستان کی کرنسی بہت مستحکم رہی ہے، اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے بھی شدید دباؤ کے باوجود روپے کی قدر کو مستحکم رکھنے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان گزشتہ سال نومبر سے تعطل کا شکار اپنے 6.5 بلین ڈالر کے بیل آؤٹ پروگرام کی بحالی کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے بات چیت کر رہا ہے۔
آئی ایم ایف کا یہ پروگرام رواں ماہ تقریباً 2.5 بلین ڈالر کے فنڈز کے ساتھ ختم ہو گیا ہے جو ابھی جاری ہونا باقی ہے اگر پاکستان بیل آؤٹ پروگرام حاصل کرنے میں ناکام رہا تو ملک پھر شدید مالی بحران کی طرف جا سکتا ہے، ملک میں ریکارڈ مہنگائی، مالیاتی عدم توازن قائم ہونے کا بھی اندیشہ ہے۔
عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے حال ہی میں کہا تھا کہ وہ بیل آؤٹ پیکج کو دوبارہ شروع کرنے سے پہلے کرنسی مارکیٹ اور دیگر مسائل کو ٹھیک کرنے کے لیے پاکستانی حکام کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔