لاہور کے ایک نجی ہوٹل میں تحریک انصاف سے الگ ہونے والے سابق حکومتی ارکان نے نئی سیاسی جماعت کی تشکیل کا اعلان کیا تو سیاست کے موسمی پرندوں سمیت میڈیا کی بے رونق خبروں میں گویا جان آگئی۔
گزشتہ ڈیڑھ برس میں ویسے کم ہی کوئی دن ایسا گیا ہے جب خبروں کی قومی اسٹاک ایکسچینج میں میڈیائی دانش مندوں کی قدر شناسی کم ہوئی ہو۔ مگر استحکام پاکستان پارٹی کی لانچ سے خبریں، تبصرے اور تجزیے پیش کرنے والوں کی مانگ میں یقیناً ’’مناسب سطح‘‘ کا اضافہ ہوا ہے۔
اخبارات کے کالمز اور ٹی وی تجزیہ کاروں کے تبصرے اب کی بار پڑھنے، سننے پر موسمی پھلوں جیسے تر و تازہ معلوم ہوتے ہیں۔ شاید میدان سیاست کے اکلوتے ماہرین کو بھی توقع ہے کہ سیاسی انتشار کے ماحول میں یہی وہ نسخہ کیمیا ہے جو 22 سالہ بیماری کا حل ثابت ہو گا۔
استحکام اور عدم استحکام والی سیاسی تحریکات کا شجرہ بنانے والے بخوبی جانتے ہیں کہ اس خطے میں عدم استحکام کی تاریخ تقسیم سے پرانی ہے۔ انگریز کے ’’ سنہری اور انصاف پسند‘‘ دور میں کئی سیاسی بونوں کو بڑی گدیوں سے نوازا گیا۔ احمد نگر قلعے اور مالٹا کی اسارت کاٹنے والوں کو طرح طرح کے القابات انہی بونوں نے عطا کیے۔ کسی کی داڑھی کھینچی گئی تو کسی کو انگریز سےغداری پر مقامی لوگوں کا ایجنٹ قرار دیا۔ نوزائیدہ تجربہ گاہ قائم ہوئی تو سمجھیں کھیلنے والوں کے ہاتھ کھلونا آگیا۔
استحکام کے بعد پہلے صوبائی انتخابات
تقسیم کے چند برس بعد1951 میں جب ملک کے دونوں حصوں میں کچھ ’’استحکام‘‘ کی صورتحال پیدا ہو چکی تھی تب صوبائی انتخابات کا خیال آیا۔ اس زمانے میں پڑوس میں جہاں پہلے عام انتخابات کا انعقاد کیا جا رہا تھا یہاں پنجاب میں صوبائی سطح پر ’’جھرلو‘‘ انتخابات کا انعقاد کیا گیا۔
نوابزادہ لیاقت علی کی خواہش پر ممتاز دولتانہ کو وزارت اعلیٰ کے مسند پر بٹھانے کے لیے ریاستی مشینری نے دن رات ایک کر دیا۔ لاہور کی ایک نشست پر ہونے والا انتخاب خاصا دلچسپ تھا جہاں ووٹنگ کے بعد کمیونسٹ نظریات کے حامل مرزا محمد ابراہیم فاتح قرار پائے۔ چند روز بعد سرکار کی کڑی نگرانی میں جب دوبارہ گنتی ہوئی تو یہ نشست تیسرے نمبرپر آنے والے اُمیدواراحمد سعید کرمانی کے حوالے کر دی گئی۔ پنجاب کےاِن تاریخی جھرلو انتخابات کے نتیجے میں 197 کے ایوان میں 153 اراکین مسلم لیگی ٹکٹ کے ذریعے ملک وملت کے وفادار نکلے۔
صوبہ سرحد کے انتخابات دسمبر 1951 میں ہوئے تو وہاں بھی وزیراعلیٰ خان عبدالقیوم خان کی سیاسی انجینئرنگ نے کام کر دکھایا۔ نتیجہ وہی تھا جو قیام وطن کے ایک ہفتے بعد ڈاکٹر خان صاحب کی منتخب حکومت پر شب خون مارنے کے بعدنکلا ۔ مرد آہن خان عبدالقیوم خان سرخرو ٹھہرے اور اپریل 1953 تک صوبہ سرحد میں وزارت اعلیٰ کی کرسی پر براجمان رہے۔
ان انتخابات کے حوالے سے پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر مظہر علی خان نے 28 فروری 1951 کو لکھا، صوبہ سرحد میں سیاسی جماعتیں صرف نام کی حد تک محدود ہیں۔ زیادہ تر سیاسی رہنما اور کارکنان جیل میں ہیں اور کسی کو کام کرنے کی آزادی نہیں ۔ صوبے کی سب سے بڑی جماعت خدائی خدمت گاروں پر پابندی تھی اور جو کوئی قیوم خان کے خلاف جا رہا تھا اس پر بھی سختی کی جا رہی تھی۔ اپوزیشن کے 31 امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دئیے گئے جس پر احتجاج کرتے ہوئے 112 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی واپس لے لیے۔
پنجاب اور سرحد کے بعد سندھ میں انتخابات کے لیے ڈیڑھ برس تک گورنر راج نافذ رہا۔ مئی 1953 میں حالات مطلوبہ نتائج کے لیے سازگار ہوئے تو انتخابات کرائے گئے اور ایک سو گیارہ نشستوں میں سے 78 پر مسلم لیگ فاتح ٹھہری۔
ویسے انتخابات کے نتیجے میں وزیراعلیٰ بننے والے عبدالستار پیرزادہ بھی ڈیڑھ ہی برس کے مہمان ثابت ہوئے کیونکہ ون یونٹ کی مخالفت میں انہیں اپنی کرسی سے ہاتھ دھونا پڑے۔ صوبائی انتخابات کی اس سیریز میں مشرقی پاکستان(بنگال) کی باری مارچ 1954 میں آئی۔ جہاں قیام وطن کے قریباً 7 برس بعد پہلی بار صوبائی سطح پر انتخابات منعقد ہوئے۔
309 کے ایوان میں حکمران مسلم لیگ کو شکست فاش ہوئی اور صرف 10 سیٹیں جیت سکی۔ یونائیٹڈ(جگتو)فرنٹ نے 223 نشستیں حاصل کیں اور بڑے بڑے برج الٹ دئیے۔ مولوی فضل الحق کی سربراہی میں اس اتحاد کی حکومت صرف 2 ماہ قائم رہ سکی اور غیر سیاسی پس منظر رکھنے والے گورنر جنرل غلام محمد نے غداری کے الزامات لگا کر سکندر مرزا کو گورنر مشرقی پاکستان بنا کر گورنر راج لگا دیا۔ سکندر مرزا نے ملکی استحکام کی خاطر قوم کی خدمت کیسے کی سبھی کچھ تاریخ کا حصہ ہے۔
1955 میں قائم ہونے والی دستور ساز اسمبلی کے ارکان کو صوبائی اسمبلیوں کے اراکین نے منتخب کیا تھا۔ مشرقی پاکستان میں جگتو فرنٹ کی کامیابی نے قانون ساز اسمبلی میں کچھ بھرم قائم رکھا ورنہ 80 ارکان پر مشتمل قانون ساز اسمبلی بھی یک رُخی ہوتی۔
1965 کا مصنوعی استحکام
آمریت کے زمانے میں ایوب خان اور فاطمہ جناح کے درمیان صدارتی انتخابات میں بنیادی جمہویتوں کے اصول پر مقابلہ ہوا ۔اس وقت چونکہ ملک بھر میں ون یونٹ سکیم نافذ تھی تو 80 ہزار اراکین میں سے مشرقی اور مغربی پاکستان کو برابری کی بنیاد پر انتخاب کا موقع دیا گیا۔ ملک کے دونوں حصوں سے 40،40 ہزار بنیادی جمہوریتوں کے اراکین نے2 جنوری 1965 کو صدارتی انتخابات میں اپنا ووٹ کاسٹ کیا۔ ملک کی محب وطن حکومتی و انتظامی مشینری نے فاطمہ جناح کے مقابلے میں ایوب خان کو صدر منتخب کرنے کے لیے بنیادی جمہوریتوں کے نمائندے باآسانی ’’مینج‘‘ کر لیے تاکہ ملکی سطح پر استحکام برقرار رہ سکے۔
23 سالہ استحکام کے بعد 1970 کے پہلےعام انتخابات
مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے قبل ہونے والے انتخابات پاکستان کی تاریخ میں پہلا مرحلہ تھا جب وفاق میں کسی حکومت کو براہ راست عوام منتخب کرتی۔ اس سے پچھلے 23 برس میں آدھا عرصہ تو جنرل ایوب کی حکمرانی رہی اور باقی ماندہ وقت میں بالواسطہ طریقے سے قانون ساز اسمبلی کے ارکان منتخب ہوتے رہے۔
ان انتخابات کے نتائج سے متعلق راؤ رشید نے اپنے انٹرویوز پر مشتمل کتاب ’’جو میں نے دیکھا‘‘ میں راؤ فرمان کے ساتھ ہونے والا ایک مکالمہ بیان کیا ہے، جس میں آخرالذکر کے بقول شیخ مجیب کو کمزور حکومت بنانے کا موقع دیا جائے گا۔ اس وقت کے حکومتی دماغ راؤ فرمان علی کا خیال تھا کہ مضبوط فوجی حکومت کے سامنے جلسے جلوس کی سیاست کرنے والے شیخ مجیب وزارت عظمیٰ کی کرسی پر 6 ماہ سے زیادہ نہیں نکال پائیں گے۔ عوامی لیگ میں اس وقت نوابزادہ نصراللہ خان اور اکبر بگٹی جیسے لوگ بھی شامل تھے۔
جون 1969 میں نوابزادہ نصراللہ خان نے نورالامین اور ائیر مارشل اصغر خان کے ساتھ مل کر ڈھاکہ میں پاکستان جمہوری پارٹی کی بنیاد رکھی۔ پیر آف پگاڑا نے انتخابات کے بعد عوامی لیگ میں شمولیت اختیار کی مگر فوجی آپریشن کے بعد علیحدگی اختیار کر لی۔ پیر آف پگاڑا کی شمولیت تو الیکشن جیتنے کے بعد سمجھ آتی ہے البتہ نوابزادہ نصراللہ کی شیخ مجیب سے علیحدگی کو محب وطن افراد عوامی لیگ کی بنگال کی قوم پرستانہ سیاست کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ ویسے بعض مبصرین کے مطابق عوامی لیگ مغربی پاکستان میں چند ایک نشستیں نکال سکتی تھی مگر سیاسی انجینئرنگ کے ذریعے تقسیم اس قدر بڑھا دی گئی تاکہ آمریت پر مبنی حکومت برقرار رہ سکے۔
گزشتہ 50 برس کا استحکام
بنگالیوں سے ہم الگ ہوئے تو 1973 کا آئین بنایا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے قبل از وقت اسمبلیاں توڑ کر انتخابات کا اعلان کیا۔ انتخابات کے نتائج آئے تو پیپلزپارٹی 155 جب کہ پاکستان قومی اتحاد کے حصے میں 36 نشستیں آئیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف 9 جماعتی پاکستان قومی اتحاد نے دھاندلی کے الزامات لگا کر تحریک چلائی مگر جمہور کی خاطر جمہوریت نہ آسکی۔
ضیائی آمریت کا سورج طلوع ہوا تو تحریک بحالیِ جمہوریت(ایم آرڈی)چلی۔ ایم آر ڈی نے 1984 کے صدارتی ریفرنڈم اور 1985 کے غیر جماعتی بنیادوں پر ہونے والے انتخابات کا بائیکاٹ کیا جس کی قیمت ایک عرصہ تک اتحاد میں شامل جماعتوں کو چکانا پڑی۔ ضیاء کا اقتدارطیارہ حادثے کے ساتھ ختم ہوا تو1988 میں پیپلز پارٹی نے حکومت قائم کی۔ جس کا مقابلہ کرنے کے لیے جنرل حمید گل کی چھتری تلے اسلامی جمہوری اتحاد بنا۔ ویسے اسلامی جمہوری اتحاد نے پنجاب میں خاصی بہتر کارکردگی دکھائی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ نوازشریف پہلی بار وزارت اعلیٰ کی کرسی پر براجمان ہوئے۔
90 کی دہائی میں سیاسی جماعتوں نے اپنے بنانے والوں کے ساتھ مل کر اقتدار کی میوزکل چیئر کا خوب لطف اٹھایا۔ جنرل مشرف نے اکتوبر 1999 میں مارشل لاء لگایا تو پھر سے کنگز پارٹی کی ضرورت پڑی۔ مسلم لیگ(ق) نے اپنے قیام کے بعد کھل کر ’’جمہور‘‘ کی خدمت کی۔ 2007 میں مشرف کو راستے سے ہٹانے کے لیے عدلیہ بحالی تحریک کی چھتری تلے سبھی محمود و ایاز ایک ہو گئے۔ جنرل کیانی کی آشیر باد لیے افتخار چوہدری منصف اعلیٰ کی کرسی پر دوبارہ براجمان ہوئے تو نواز شریف کالا کوٹ پہن کر ان کے روبرو موجود تھے۔
اس عرصے میں پراجیکٹ تحریک انصاف بھی کامیابی سے چل پڑا تھا کہ 2013 کے انتخابات ہوئے۔ نوازشریف 2 تہائی اکثریت لیے تیسری بار وزیراعظم بن گئے مگر دھاندلی کے خلاف احتجاج کرنے والے عمران خان کے سبب استحکام کی کوئی صورت بر نہیں آئی۔ دہشت گردی کے عفریت کو عسکری آپریشنز کے ذریعے قابو کرنے کی کوشش کی گئی تو دوسری غلطیاں گلے کی ہڈی بن گئیں۔
ہم خیال عدلیہ نے نوازشریف کو رخصت کیا تو عمران خان انصاف کی تحریک لیے اقتدار کی غلام گردشوں میں داخل ہوئے۔ اپریل 2022 میں جنرل فیض سے خوفزدہ اپوزیشن نے عمران خان کو ہٹا کر اقتدار سنبھالا تاکہ معاملات سنبھل سکیں۔ مگر قومی افق پر استحکام تو دور آج حالات اس قدر مخدوش ہیں کہ آئی ایم ایف یا ’’دوست‘‘ ممالک چند کروڑ یا ارب ڈالرز کی یقین دہانی نہ کرائیں تو سالمیت پر سوال اٹھتے ہیں۔
گزشتہ 7،8 دہائیوں کی تاریخ میں قیوم خان کی مسلم لیگ قیوم، اصغر خان کی تحریک استقلال اور مسلم لیگ جونیجو سمیت کتنی ہی سیاسی گروہ بندیاں سیاسی منظر نامے پر نمودار ہوئیں اور غائب ہو گئیں۔ جہاں معاشی عدم مساوات ہے، نا انصافی پر مبنی نظامِ عدل ہے اور جاگیرداری و سرمایہ داری کے لیے قائم کیا گیا سیاسی ڈھانچہ ہے جس میں عوامی و انسانی حقوق ڈھونڈے سے نہیں ملتے، وہاں ملکی استحکام کی خاطر پالا گیا بکھیڑا عدم استحکام میں اضافہ تو کرسکتا ہے مگر کسی پرانے مسئلے کا نیا حل نہیں ہو گا۔