ارشد شریف قتل کیس میں چیف جسٹس سماعت سے اٹھ کر کیوں گئے؟

منگل 13 جون 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے سینیئر صحافی ارشد شریف قتل کیس کی سماعت کے دوران دلائل کے لیے وقت اٹارنی جنرل آف پاکستان ہی کو دیا اور بظاہر یہی معلوم ہو رہا تھا کہ وہ ارشد شریف مرحوم کی والدہ کے وکیل شوکت عزیز صدیقی کو سننا ہی نہیں چاہتے، جس سے آج کی سماعت کے دوران ماحول میں تلخی پیدا ہوئی، تھوڑی دیر کے لیے آوازیں بھی قدرے بلند ہوئیں اور سماعت ختم ہو گئی۔

اٹارنی جنرل آف پاکستان سے، اس معاملے میں حکومتی پیش رفت سے آگاہی کے بعد عدالت نے جولائی کی تاریخ بھی دے دی اور عدالتی اہلکار ججز کی کرسیوں کے پیچھے آ کر کھڑے ہو گئے جو عدالتی کارروائی میں واضح اشارہ ہوتا ہے کہ اب ججز عدالت سے اٹھ کر واپس چیمبر میں جائیں گے، لیکن ایسے میں شوکت عزیز صدیقی ایڈووکیٹ نے قدرے بلند آواز میں عدالت سے استدعا کی کہ وہ ان کی گزارشات بھی سنیں جبکہ ججز ان کو نہ سننے پر مصر تھے۔

اس سے قبل عدالت نے اٹارنی جنرل کے دلائل کے بعد ہی مقدمے کی سماعت ختم کر دی تھی اور شوکت عزیز صدیقی کو دلائل کے لیے روسٹرم پر آنے کی دعوت ہی نہیں دی۔ جب شوکت عزیز صدیقی ایڈووکیٹ نے قدرے بلند آواز میں ججز سے سماعت کی درخواست کی تو چیف جسٹس نے کہا کہ آپ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں اس حوالے سے آپ کی درخواست ہمارے پاس موجود ہی نہیں۔

اس پر شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ میری درخواست موجود ہے آپ مجھے بات کرنے کا موقع تو دیں۔ انہوں نے عدالت کے سامنے کہا کہ کینیا اور متحدہ عرب امارات میں اس مقدمے کے بارے میں جو پیش رفت ہو رہی ہے سو ہو رہی ہے لیکن ایک پیش رفت پاکستان میں بھی ہو رہی ہے۔یہاں کئی لوگ دعوے کرتے ہیں کہ وہ اس قتل کے حقائق سے واقف ہیں اور ایک لانگ مارچ بھی کیا گیا جو وزیر آباد پر ختم ہوا۔

شوکت عزیز صدیقی کے دلائل کے دوران جج صاحبان مسلسل انہیں مزید گفتگو سے منع کرتے رہے اور اس دوران شوکت عزیز صدیقی کی آواز بھی قدرے بلند ہو گئی، انہوں نے کہا کہ ارشد شریف کی والدہ نے درخواست کی ہے کہ 5 لوگ عمران خان، عمران ریاض، مراد سعید، سلمان اقبال اور فیصل واوڈا کے بیانات قلمبند کیے جائیں۔ کیونکہ ان لوگوں نے سوشل میڈیا پر دعوے کیے تھے کہ یہ اس مقدمے کے حقائق سے آگاہ ہیں اس لیے ان کے بیانات قلمبند ہونے چاہییں۔

اس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب! آپ اس مقدمے کی تفتیش تو نہیں کر سکتے لیکن اگر ارشد شریف کی والدہ کے وکیل آپ کو کوئی درخواست دیں تو اس پر غور کریں۔

ہم مقدمے کے تفتیشی عمل کی سہولت کاری کر رہے ہیں، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم تو صرف اس مقدمے کی تفتیش کے عمل کی سہولت کاری کر رہے ہیں اور کسی پر انگلی نہیں اٹھا رہے۔

شوکت عزیز صدیقی ایڈووکیٹ نے ایک بار پھر زور دے کر کہا کہ میں اس مقدمے میں آپ کا حکمنامہ پڑھنا چاہوں گا لیکن عدالت نے ان کو ایسا کرنے سے منع کر دیا۔

شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ 5 لوگوں کے بیانات دفعہ 161 کے تحت ریکارڈ ہونے چاہییں۔ انہوں نے کہا یہ بھی الزام عائد کیا گیا کہ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ ارشد شریف کے خاندان کے کسی فرد کی جانب سے لیک کی گئی ہے جبکہ ایسا نہیں ہے، بلکہ اس معاملے کی تحقیقاتی یا فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ مراد سعید نے لیک کی ہے۔

اس پر چیف جسٹس بولے کہ جس نے بھی لیک کی اس سے اس مقدمے کو نقصان ہوا ہے۔ بحرحال ہم اٹارنی جنرل اور تفتیشی افسر سے کہہ رہے ہیں کہ آپ کی درخواست وصول کر کے اگر اس پر کوئی کارروائی بنتی ہے تو کریں۔

شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ یہی بات آپ آرڈر میں لکھوا دیں لیکن چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اس کو آرڈر میں نہیں لکھوائیں گے اور اسی گرما گرمی کے ماحول میں عدالت برخاست ہو گئی اور بینچ اٹھ کر واپس چلا گیا۔

واضح رہے کہ نجی ٹی وی سے منسلک سینیئر اینکر پرسن ارشد شریف کو

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp