ڈائریکٹر جنرل پروونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی بلوچستان (پی ڈی ایم اے) کا کہنا ہے کہ سمندری طوفان بپر جوائے کا بلوچستان کی ساحلی پٹی سے ٹکرانے کا خطرہ تو ٹل گیا ہے لیکن طوفان کے سبب 10 سے 20 فٹ اونچی سمندری لہریں پیدا ہونے کا امکان موجود ہے اس علاوہ ساحلی علاقوں میں تیزی ہواؤں کے ساتھ موسلادھار بارش بھی ہو سکتی ہے۔
محکمہ موسمیات اور پی ڈی ایم اے کے مطابق بحیرہ عرب کے وسط سے آبادی کی طرف بڑھنے والا بپر جوائے نامی طوفان پاکستان کی ساحلی پٹی سے شمال مغرب کی جانب اپنا رخ کر چکا ہے۔ سمندری طوفان اس وقت ٹھٹھہ سے 360، کراچی سے 350 جبکہ کیٹی بندر سے 300 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔
ڈی جی پی ڈی ایم اے بلوچستان جہانزیب خان کے مطابق بلوچستان میں شدید سائیکلون کا خطرہ ٹل گیا ہے لیکن سمندر میں طوفان کے سبب تیز ہواؤں اور بارش کا خطرہ موجود ہے۔ ابتدائی طور پر بپر جوائے کا حب، لسبیلہ اور گوادر کو ہٹ کرنے کا خطرہ موجود تھا جس کے سبب تمام تر حفاظتی اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔
گزشتہ روز طوفانی سمندری لہریں اورماڑہ کی آبادی میں داخل ہو گئیں جس کے باعث نشیبی علاقے زیرآب آگئے تاہم پی ڈی ایم اے کی جانب سے لوگوں کی ریسکیو کرنے کا عمل جاری ہے۔
بپر جوائے سے قبل کتنے سمندری طوفانوں نے پاکستان کی ساحلی پٹی کو متاثر کیا
پاکستان کی ساحلی پٹی 1050 کلومیٹر پر محیط ہے جس میں صوبہ سندھ 250 جبکہ بلوچستان 800 کلو میٹر کے ساحل پر مشتمل ہے۔ ماضی قریب میں بھی کئی سمندری طوفانوں نے پاکستان کے ساحل کو بالواسطہ طور پر متاثر کیا ہے۔
مزید پڑھیں
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے ڈائریکٹر سائکلون وارننگ سینٹر زبیر احمد صدیقی نے بتایا کہ گزشتہ 25 سالوں کے دوران تین بڑے سمندری طوفانوں نے پاکستان کے ساحل کو ہٹ کیا۔ 1999 میں 02 اے نامی سمندری طوفان نے کیٹی بندر کے ساحلی علاقے کو متاثر کیا اس طوفان سے سمندری میں 20 فٹ تک بلند لہریں پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ تیز ہوائیں اور موسلادھار بارش ہوئی جس سے کیٹی بندر کے نشیبی علاقے بری طرح متاثر ہوئے۔
زبیر احمد نے بتایا کہ اسی طرز کا یون یین نامی سمندری طوفان 6 جون 2007 کو بلوچستان کی ساحلی پٹی اورماڑہ اور پسنی سی ٹکرایا۔ اس طوفان سے بھی سمندر میں بلند لہریں پیدا ہوئیں اور تیز ہواؤں کے ساتھ خوب بارش برسی تاہم اس سے کم نوعیت کا فیٹ نامی سمندری طوفان 6 جون 2010 کو ٹھٹھہ اور کیٹی بندر سے ٹکرایا۔
زبیر احمد بتاتے ہیں کہ گزشتہ 25 سال سے پاکستان کی ساحلی پٹی پر کوئی بھی سمندری طوفان مکمل طور پر نہیں ٹکرایا جس کی وجہ سے نقصان اس حد تک نہیں ہوا۔ اس وقت بپر جوائے کا زور بھارت کی ساحلی پٹی گجرات کی جانب ہے جبکہ پاکستان اس طوفان سے محفوظ ہو چکا ہے۔