کراچی میئر الیکشن میں پی ٹی آئی رہنما فردوس شمیم نقوی نے اپنا ووٹ کاسٹ کیوں نہیں کیا؟

جمعرات 15 جون 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سندھ اسمبلی کے رکن فردوس شمیم نقوی نے کہا ہے کہ وہ کراچی میں میئراور ڈپٹی میئر شپ کے الیکشن میں اپنا ووٹ ڈالنا چاہتے تھے لیکن الیکشن کمیشن کے آفیسر کے اعتراض پر وہ اپنا ووٹ نہیں ڈال سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کے آفیسر کی جانب سے مجھے یہ کہا گیا کہ اگر میں میئر اور ڈپٹی میئر شپ کے لیے ووٹ ڈالوں گا تو مجھے صوبائی اسمبلی کی نشست سے ’ڈی سیٹ‘ کر دیا جائے گا۔

جمعرات کو کراچی کی میئر اور ڈپٹی میئر شپ کے لیے ہونے الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کراچی کے راہنما اور رکن صوبائی اسمبلی فردوس شمیم نقوی جو اس وقت 9 مئی کے واقعات میں ملوث ہونے کے الزام میں جیل میں بند ہیں، ووٹ ڈالنے آئے تو انہیں وہاں پر الیکشن کمیشن کے آفیسر نے ووٹ ڈالنے سے روک دیا۔

میئر ڈپٹی میئر کےانتخابات کے بعد ایک انٹرویو میں فردوس شمیم نقوی نے کہا کہ’پاکستان کے آئین کے مطابق میرا ایک بنیادی نقطہ نظر ہے، آئین کی شقوں میں لکھا ہوا ہے کہ ایک آدمی صوبائی اسمبلی یا قومی اسمبلی میں سے کسی ایک کا ممبر ہو سکتا ہے یا سینیٹر ہو سکتا ہے۔

کوئی بھی آدمی بیک وقت 2 نشستیں اپنے پاس نہیں رکھ سکتا، ایسا نہیں ہے کہ کوئی آدمی صوبائی اسمبلی کی 2 نشستیں اپنے پاس رکھے یا قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی یا پھر قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں کی بیک وقت نشستیں اپنے پاس رکھے۔

انہوں نے کہا کہ یہ بات تو قومی یا صوبائی اسمبلی کی نشست کے بارے ہے لیکن پاکستان کا آئین اس بات پر مکمل خاموش ہے کہ کوئی یونین کونسل کا چیئرمین ممبر صوبائی اسمبلی کی نشست اپنے پاس نہیں رکھ سکتا۔

ایسا آئین میں کہیں بھی نہیں لکھا کہ یونین کونسل (یو سی) کا چیئرمین ممبر صوبائی اسمبلی یا قومی اسمبلی یا سینیٹ کی نشست اپنے پاس نہیں رکھ سکتا۔

آئین میں چیئرمین یونین کونسل کے اسمبلی نشست بھی پاس رکھنے پر کوئی اعتراض نہیں: فردوس شمیم

انہوں نے کہا کہ جب آئین اس بات کی اجازت دیتا ہو تو پھر میرے خیال میں اس بارے میں لوکل باڈیز ایکٹ کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ میں نے اپنا یہ نقطہ نظر الیکشن کمیشن کے آفیسر کے سامنے رکھا لیکن ان کی اپنی یہ اختراع تھی کہ اگر میں نے لوکل باڈیز میں میئر شپ کے لیے ووٹ ڈالا تو مجھے صوبائی اسمبلی کی نشست سے ’ڈی سیٹ ‘ کر دیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ میں اس وقت صوبائی اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی واحد آواز ہوں کیوں کہ باقی سب کو تو اس وقت انہوں نے غائب کیا ہوا ہے، اس لیے مجھے پارٹی کی جانب سے بھی یہی ہدایت ہے کہ میں صوبائی اسمبلی میں پارٹی کی نمائندگی کرتا رہوں۔

انہوں نے کہا کہ اسپیکر صوبائی اسمبلی میرے پروٹیکشن آرڈر جاری نہیں کر رہے جو کہ انتہائی نا انصافی ہے۔ میں صوبائی اسمبلی میں جا کر حالیہ بجٹ پر تقریر کرنا چاہتا ہوں۔ ایک ماہ ہو گیا ہے صوبائی اسمبلی کا اجلاس چل رہا ہے، انہیں اپنے پروٹیکشن آرڈر کی تو فکر ہے لیکن میرے ساتھ وہ نا انصافی کر رہے ہیں۔

واضح رہے کہ کراچی میں جمعرات کو ایک اہم دن رہا جہاں میئر کے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کا سخت مقابلہ ہوا جس میں پیپلز پارٹی کے امیدوار مرتضی وہاب 173 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے جبکہ جماعت اسلامی کے امیدوار حافظ نعیم الرحمن نے 160 ووٹ حاصل کیے۔

یہ انتخاب اس اعتبار سے منفرد رہا کہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے مابین اتحاد ہوچکا تھا اور ان کے ووٹوں کی کُل تعداد 192 تھی مگر تحریک انصاف کے 33 منتخب چیئرمین ووٹ کے لیے آرٹس کونسل آف پاکستان نہیں پہنچ سکے جس کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کو کامیابی حاصل ہوگئی۔

اس حوالے سے دلچسپ صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب انتخاب کے بعد مرتضی وہاب نے میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کی۔ اس دوران میڈیا نے مرتضیٰ وہاب سے پوچھا کہ ہال میں تو جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے 161 افراد موجود تھے مگر کاسٹ ہونے والے ووٹوں کی تعداد 160 رہی، تو ایسا کیوں ہوا؟

اس سوال کے جواب میں مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ پی ٹی آئی رہنما فردوس شمیم نقوی نے اپنا ووٹ کاسٹ نہیں کیا۔ جب اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ فردوس شمیم نقوی کا کہنا تھا کہ وہ پہلے صورتحال کا جائزہ لیں گے، اگر ان کا ووٹ فیصلہ کن ثابت ہوگا تب ہی وہ ووٹ دیں گے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ صوبائی اسمبلی کی نشست اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں۔

مرتضیٰ وہاب کے بیان کے بعد فردوس شمیم نقوی کا انٹرویو سامنے آیا جس میں انہوں نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ وہاں ووٹ ڈالنے گئے لیکن وہاں موجود الیکشن کمیشن کے آفیسر نے انہیں صوبائی اسمبلی کی نشست سے ’ڈی سیٹ‘ کرنے کی دھمکی دی جس کے باعث وہ ووٹ ڈالنے میں ناکام رہے ہیں۔

مگر مرتضیٰ وہاب کی یہ بات بالکل درست ہے کہ اگر فردوس شمیم نقوی اپنا ووٹ کاسٹ کرلیتے تو پھر صوبائی اسمبلی کی سیٹ انہیں خالی کرنی پڑتی، مگر ووٹ نہ دینے کی صورت میں وہ اب بھی صوبائی اسمبلی کے ممبر ہیں۔ لیکن دوسری جانب یہ سوال بھی اب پیدا ہو رہا ہے کہ کیا وہ چیئرمین یونین کونسل کی نشست بھی اپنے پاس رکھ سکتے ہیں یا انہیں اس سے استعفیٰ دینا ہوگا؟

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp