شور شرابا، نعرے بازی، احتجاج اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے 30 ارکان کی عدم موجودگی میں مرتضیٰ وہاب میئر کراچی منتخب ہوگئے۔
جماعت اسلامی کے شدید احتجاج اور پی ٹی آئی کے 30 منتخب نمائندوں کی عدم موجودگی میں کراچی آرٹس کونسل کے ہال میں مرتضیٰ وہاب کو میئر کراچی منتخب کر لیا گیا۔
یہ شاید دنیا کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہو کہ ایوان میں کسی شہر کے 12 فیصد آبادی کے نمائندوں کی عدم موجودگی پر کسی کو میئر کے عہدے پر منتخب کیا گیا ہو۔ نتیجے کے طور پر جماعت اسلامی پی ٹی آئی کی حمایت کے ساتھ میئر لانے کی تگڑی پوزیشن میں ہونے کے باوجود اپنا مئیر لانے میں ناکام رہی۔
گزشتہ روز آرٹس کونسل کراچی میں میئر اور ڈپٹی مئیر کے انتخاب کے لیے تیاریاں مکمل کر لی گئی تھیں۔ آج صبح سے ہی پولیس رینجرز، میڈیا اور کارکنان کی بڑی تعداد آرٹس کونسل کے باہر پہنچی۔ سیکیورٹی اداروں کی جانب سے سیاسی جماعتوں کے کارکنان کو روکنے کے انتظامات کیے ہوئے تھے اور رینجرز بھی کسی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے موجود تھی۔
9 بجے انتخابی عمل میں شرکت کے لیے اراکین کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا اور سب سے پہلے جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کے منتخب نمائندے ہہنچے۔ اس موقع پر صحافیوں کی نظریں پی ٹی آئی کے اراکین پر تھیں جن سے بات کرنے کی کوشش کی گئی تو اکثریت کا یہ کہنا تھا کہ وہ اپنا ووٹ چیئرمین عمران خان کی ہدایت کے مطابق استعمال کریں گے۔ دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کے ارکان بھی چارجڈ دکھائی دیے اور باوجود اس کے کہ جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کو اکثریت حاصل ہے تھی پیپلز پارٹی والے پر امید تھے کہ میئر انہی کی پارٹی کا ہوگا۔
جیل میں موجود منتخب نمائندے
آرٹس کونسل کے باہر ایک بکتر بند گاڑی رکی جس سے فردوس شمیم نقوی سمیت 3 منتخب نمائندے اتارے گئے۔ فردوس شمیم نقوی کے علاوہ 2 اراکین کو ہتھکڑی میں لایا گیا تھا۔ اس حوالے سے جب مرتضیٰ وہاب سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا ہتھکڑی میں منتخب نمائندے کو لے کر آنا غیرمناسب عمل تھا ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔
حافظ نعیم الرحمان کی آمد
جماعت اسلامی کے حافظ نعیم الرحمان کی آمد کے ساتھ ہی نعرے بازی شروع ہوئی اور کارکنان نے ان کا استقبال بھی کیا حافظ نعیم کا یہ کہنا تھا کہ جیت ہماری ہی ہے ہمارے ووٹرز آرہے ہیں اگر کسی کو آنے نہیں دیا گیا تو یہ توہین عدالت ہوگی۔
مرتضیٰ وہاب کی آمد
مرتضیٰ وہاب کی آمد کے ساتھ ہی میئر کراچی کے نعرے لگنے لگے۔ وہ اپنے ووٹرز کے ہمراہ آرٹس کونسل میں داخل ہوئے اور ہمیشہ کی طرح مطمئن دکھائی دیے۔ اس وقت ان کا کہنا تھا کہ جیت تو انہی کی ہوگی۔ ہال کا گیٹ بند ہونے میں ابھی 10 منٹ ہی باقی تھے کہ کارکن مرتضیٰ وہاب کے پاس آئے اور کہا کہ وقت کم رہ گیا ہے آپ اندر چلے جائیں جس ہر وہ ہال میں چلے گیے۔
ایم پی اے لیاقت آسکانی کی مانیٹرنگ
پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنان کے ساتھ ساتھ رکن صوبائی اسمبلی لیاقت آسکانی بھی صبح سے آرٹس کونس کے اندر موجود رہے اور تمام تر معاملات کا جائزہ بھی لیتے رہے اور معاونت بھی کرتے رہے۔ وہ لوگوں کے لیے کھانے پینے کی اشیا کی فراہمی کے انتظامات دیکھتے رہے اور سارا وقت وہیں موجود رہے۔
11 بجتے ہی آرٹس کونسل کے دروازے بند کر دیے گئے
11 بجے تک ووٹ ڈالنے کے لیے آئے آراکین انتخابی ہال میں جمع ہو چکے تھے۔ گیٹ بند ہوتے ہی مرکزی دروازے پر کارکنان کا دباؤ بھی بڑھنے لگا۔ اس وقت سب کی نظریں کاؤنٹر پر اندراج شدہ اعداد و شمار ہر تھیں جس سے اندازہ ہوا کہ 303 ارکان اب تک ووٹ ڈالنے آچکے ہیں۔ ووٹنگ کے عمل سے میڈیا کو دور رکھا گیا۔ آغاز میں ہی ذرائع سے اطلاع ملی کہ ہال میں اس وقت 333 ارکان پہنچ چکے ہیں اور اکثریت مرتضیٰ وہاب کی ہے۔
میئر اور ڈپٹی میئر کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدواروں کو 173 ووٹ پڑے جن میں پیپلز پارٹی کے 155،مسلم لیگ ن کے14 اورجے یو آئی کے4 اراکین شامل تھے۔ تحریک لبیک پاکستان کے ایک منتخب نمائندے انتخابی عمل میں شریک نہیں ہوئے۔ دوسری جانب جماعت اسلامی اورپی ٹی آئی کے حمایت یافتہ میئر اور ڈپٹی میئر کو 160 ووٹ ملنے تھے لیکن 30 اراکین کی عدم حاضری کے باعث فردوس شمیم نقوی نے اپنی صوبائی اسمبلی کی نشست کو بچاتے ہوئے ووٹ کا استعمال نہیں کیا اور یوں یہ تعداد 159 رہی۔
نتیجہ آنے کے بعد آرٹس کونسل کے باہر کیا ہوا؟
غیر حتمی اور غیر سرکاری نتیجہ آنے کے بعد آرٹس کونسل سے ملحقہ سڑک پہلے بعرے بازی سے گونجی اور اس کے بعد پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کے کارکنان کے بیچ پتھراؤ ہوا جس سے کارکنان زخمی ہوئے۔
حالات اتنے کشیدہ ہوئے کہ پولیس اور رینجرز کو مداخلت کرنی پڑی اور نتیجے کے طور پر پولیس نے جماعت اسلامی کے 3 کارکنان کو حراست میں لے لیا اور آرٹس کونس کے اطراف سے تمام کارکنان کو ہٹادیا گیا۔ اضافی نفری بھی تعینات کی گئی اور سڑک کو ٹریفک کے لیے بند کردیا گیا۔
کشیدہ حالات کے پیش نظر پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کے منتخب نمائندے انتخابی ہال سے باہر آئے اور میڈیا کے ذریعے کارکنان کو پیغام پہنچایا کہ ووٹنگ کا عمل دوستانہ ماحول میں ہوا ہے کارکنان صبر کا مظاہرہ کریں۔ جماعت اسلامی کی جانب سے بتایا گیا کہ دھرنے کے حوالے سے ابھی کچھ طے نہیں پایا ہے اور اس کا حتمی اعلان حافظ نعیم خود کریں گے۔
’جیت کا جشن کراچی کی سڑکوں ہر ہوگا‘
نومنتخب میئر کراچی نے کہا کہ عوام شہر کی سڑکوں ہر جیت کا جشن منائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’میں اور حافظ نعیم ایک ساتھ ہال میں بیٹھے رہے، وہ میرے بڑے بھائی ہیں اگر دھرنا دیا گیا تو ہم بات چیت سے معاملات حل کریں گے کیوں کہ سیاسی معاملات سیاست سے ہی حل ہوا کرتے ہیں‘۔