عدلیہ کا احتساب کوئی دوسرا نہیں کرسکتا تو پھر یہ اختیار تمام اداروں کو ملنا چاہیے، عرفان قادر

ہفتہ 17 جون 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب عرفان قادر نے کہا ہے کہ احتساب سے متعلق پاکستان کے آئین میں کوئی ابہام نہیں لیکن جب جج صاحبان نے عدلیہ کا احتساب خود اپنے ہاتھ میں لیا ہوا ہے اور کوئی دوسرا ان کا احتساب نہیں کرتا تو پھر باقی اداروں میں بھی ایسا ہی ہونا چاہیے۔

گورنر ہاؤس پنجاب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بدعنوانی کے مرتکب پارلیمنٹرینز کا احتساب نیب اور دیگر ادارے کرتے ہیں لیکن اگر ججز خود احتسابی کرتے ہیں تو خود احتسابی کا اختیار دیگر اداروں کو بھی ملنا چاہیے۔

عرفان قادر نے کہا کہ آئین میں صاف طور پر لکھا ہوا ہے کہ کوئی بھی جج اگر فیصلہ کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھے تو سپریم جوڈیشل کونسل اسے ہٹا سکتی ہے اگر جج ریٹائر بھی ہو جائے تب بھی اس کے خلاف تحقیقات ہو سکتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں کوئی پیشرفت نہیں ہو رہی اور اب تو یہ بھی ایک راستہ بن گیا ہے کہ جان چھڑانے کے لیے کہا جاتا کہ میں استعفیٰ دے رہا ہوں کیوں کہ ایسا کرنے سے تو پھر جان چھوٹ جاتی ہے اور پینشن بھی ملتی رہتی ہے۔

وزیراعظم کے معاون خصوصی نے کہا کہ آئین و قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ججز دوسرے اداروں میں مداخلت کریں یا قانون کے ساتھ کھیلیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ کے جج محسن اختر کیانی کے حوالے سے کچھ چیزیں سامنے آئی ہیں جو یہ ہیں کہ کچھ عرصے میں ان کے گھومنے پھرنے کے اخراجات 6 کروڑ روپے ہیں جب کہ ان کے اثاثوں میں بھی اضافہ ہوا ہے اور یہ معاملات انتہائی سنگین نوعیت کے ہیں۔

عرفان قادر نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل ججز کے خلاف کیسز کو منطقی انجام تک پہنچائے کیوں کہ کیسز کو التوا میں ڈالنے کا اختیار کسی کو نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کچھ ججز کے بارے میں آڈیو لیکس سامنے آئی ہیں جس کے بعد حکومت نے ایک کمیشن قائم کیا جو ججز پر ہی مشتمل تھا مگر اپنی مرضی کے بینچز بنا کر انہیں بھی غیر فعال کر دیا گیا۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا ایسا نظام چلا کر ہم ملک کو انارکی کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں۔

عرفان قادر نے کہا کہ کسی کو بھی کرپشن سے استثنیٰ حاصل نہیں چاہے وہ بیوروکریٹ ہو جج اور کارروائی صرف صدر اور گورنر کے خلاف نہیں ہوسکتی وہ بھی اس وقت جب تک وہ اپنے عہدے پر ہوں۔

انہوں نے کہا کہ فوج میں کئی لوگوں کے خلاف فوجی عدالتوں میں کیس دائر ہوئے اور اس کے علاوہ کئی ریٹائرڈ ججز کے خلاف نیب میں بھی کیس فائل ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب تک ہماری حکومت مدت پوری نہیں کرتی ہم اس بات کے لیے کوشاں رہیں گے کہ آئین و قانون پر عملدر آمد ہو لیکن ایک خاص ادارے میں لگ رہا ہے کہ چند لوگ ہی سسٹم کو کنٹرول کر رہے ہیں۔

عرفان قادر نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیچر ایکٹ کا مقصد یہ تھا کہ کسی ایک کو فیصلے کرنے کا اختیار نہیں ہونا چاہیے اور اس ایکٹ کی کوئی ایک شق بھی ایسی نہیں جو آئین سے متصادم ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 184 تھری کے تحت جب عدالت فیصلہ کرتی ہے تو لوگوں کو اپیل کا حق حآصل ہوتا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp