انتخابات نزدیک تر: کیا نواز شریف کی پارلیمانی سیاست میں واپسی ممکن ہے؟

ہفتہ 17 جون 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نواز شریف کی پارلیمانی سیاست میں واپسی کی راہ میں ان کی سپریم کورٹ کی جانب سے نااہلی اور اسلام آباد کی العزیزیہ کرپشن ریفرینس میں انہیں سنائی جانے والی احتساب عدالت کی سزا بھی حائل ہے۔ گو پی ڈی ایم حکومت قانون سازی کے ذریعے ان رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن کیا سپریم کورٹ کی جانب سے اس قانون سازی پر اٹھائے گئے اعتراضات حل ہو پائیں گے؟

یہاں ایک اور سوال بھی ابھرتا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب پی ڈی ایم کی اتحادی جماعتیں قانون سازی کے معاملے پر فی الوقت تو ہم آہنگ ہیں، لیکن انتخابات کے قریب جب یہ پارٹیاں ایک دوسرے کے خلاف الیکشن لڑیں گی تو مستقبل قریب میں مذکورہ قانون سازی پر ان کے درمیان اتحاد و یگانگت کے کتنے امکانات ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری یہ کہہ چکے ہیں کہ ان کی جماعت انتخابات میں جانے کے لیے تیار ہے اور ساتھ ہی انہوں نے مسلم لیگ ن کے ساتھ اپنے تعاون کو بھی مشروط کر دیا ہے۔

گزشتہ روز پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر اور وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے پارٹی کی جنرل کونسل اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف کے چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بننے کی خواہش کا اظہار تو کر دیا لیکن اس کی تکمیل پارٹی قائد کی وطن واپسی، مقدمات سے بریت اور نااہلی کے خاتمے سے مشروط ہے جس کے لیے حکومتی اتحاد کی بڑی جماعت مسلم لیگ ن مختلف طریقوں سے کوششیں کر رہی ہے اور پی ڈی ایم کی دیگر جماعتوں نے ان کوششوں میں اس کا ساتھ بھی دیا ہے۔

پہلی کوشش

اس سلسلے میں وفاقی حکومت کی جانب سے پہلی کوشش 10 اپریل کو کی گئی جب پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل منظور کیا جس میں باقی شقوں کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ کے ازخود اختیارات کے تحت دیے گئے فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق بھی شامل تھا۔ گو کہ اس بل کے بارے میں کہا گیا کہ اس کا اطلاق ماضی کے فیصلوں پر نہیں ہو گا لیکن کچھ قانون دانوں کے مطابق یہ ایکٹ بالواسطہ طریقے سے میاں نواز شریف کو فائدہ پہنچا سکتا ہے لیکن 13 اپریل کو سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے اس بل پر حکم امتناع جاری کرتے ہوئے کہا اسے سپریم کورٹ کے صوابدیدی اختیارات میں مداخلت کی کوشش قرار دے دیا تھا۔

دوسری کوشش

ازخود نوٹس مقدمات میں دیے گئے فیصلوں کے خلاف اپیل کے حق کے لیے دوسری کوشش 24 مئی کو سامنے آئی جب صدر پاکستان عارف علوی نے ریویو آف ججمنٹ اینڈ آرڈر ایکٹ 2023 پر دستخط کر کے سپریم کورٹ کے ججوں کو بھی حیران کر دیا اور پنجاب انتخابات سے متعلق مقدمے کی سماعت کے دوران جب عدالت کو بتایا گیا کہ اس طرح کا ایک قانون آ چکا ہے تو انہوں نے حیرت کا اظہار کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے برعکس ریویو آف ججمنٹ اینڈ آرڈر ایکٹ پر حکم امتناع جاری نہیں کیا جب کہ سپریم کورٹ اس مقدمے میں پارلیمنٹ کی جانب سے نظر ثانی کو اپیل میں بدلے جانے پر دلائل کی سماعت کر رہا ہے۔ گزشتہ روز اور اس سے قبل کی سماعت پر چیف جسٹس عمر عطاء بندیال یہ کہہ چکے ہیں کہ ہم اس ترمیم کو خوش آمدید کہیں گے لیکن یہ ایکٹ آف پارلیمنٹ کی بجائے آئینی ترمیم ہونی چاہیئے جس کے لیے پارلیمان کی 2 تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے۔

تیسری کوشش

اس سلسلے میں تیسری کوشش گزشتہ روز 16 جون کو سامنے آئی جب سینیٹ نے عوامی عہدیداران کی نااہلی سے متعلق قانون کو تاحیات کی بجائے 5 سال کی مدت تک محدود کر دیا۔ گو کہ ابھی یہ بل قومی اسمبلی میں منظوری کے لیے پیش ہونا ہے لیکن بظاہر لگتا ہے کہ اس بل کا مقصد پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف کی پارلیمانی سیاست میں واپسی کے لیے راہ ہموار کرنا ہے۔

لیکن اگر نااہلی کو مدت مقرر کرنے کی رکاوٹ دور بھی کر دی جائے تو اس کے بعد بھی میاں نواز شریف کو احتساب عدالت کی جانب سے العزیزیہ کرپشن ریفرنس میں سنائی جانے والی سزا ان کی پارلیمانی سیاست میں واپسی کی راہ میں حائل ایک بہت بڑی رکاوٹ ہوگی۔

احمد بلال محبوب

پاکستان میں انتخابی عمل اور جمہوریت کی نگرانی کرنے والی غیرسرکاری تنظیم پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کے سامنے جب ہم نے یہ سوال رکھے تو ان کا کہنا تھا کہ بظاہر یہی لگتا ہے کہ یہ تمام کاوشیں میاں نواز شریف کی انتخابی سیاست میں واپسی کے لیے کی جارہی ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ کامیاب ہو پائیں گی۔

احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ اس وقت عدلیہ ان کاوشوں کے حق میں نہیں ہے اس لیے یہ قانون سازی کے ذریعے سے اس کا حل نکالنا چاہ رہے ہیں۔

نااہلی کی مدت کو تاحیات سے کم کر کے 5 سال تک محدود کرنے کی قانون سازی کے بارے میں بات کرتے ہوئے احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ اس چیز کا فائدہ نہ صرف میاں نواز شریف بلکہ ان کے ممکنہ اتحادی جہانگیر ترین کو بھی ہو گا۔

نواز شریف کے خلاف زیر سماعت مقدمات کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان کی واپسی میں ایک سے زائد رکاوٹیں حائل ہیں۔ ایک تو ان کی نااہلی ہے اور دوسری احتساب عدالت کی جانب سے ان کو سنائی جانے والی سزا ہے اور پھر نواز شریف کی بطور پارٹی صدر بحالی کا معاملہ علیحدہ ہے۔

احمد بلال محبوب نے کہا کہ یہ سارے قانونی معاملات ہیں اور ان کے خیال میں ایک ایک کر کے ان کا حل نکالنے کی کوشش کی جائے گی۔ جب احمد بلال محبوب سے پوچھا گیا کہ 12 اگست کو جب اسمبلی اپنی مدت پوری کرے گی تو کیا مسلم لیگ ن کے پاس نواز شریف کی واپسی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے وقت کم نہیں ہے تو اس پر ان کا کہنا تھا کہ ممکنہ طور پر ایک ایسا نگران سیٹ اپ لایا جائے گا جو ان معاملات میں مدد گار ہو۔

اکرام چوہدری ایڈووکیٹ

سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل اکرام چوہدری نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ مسلم لیگ کے قائدین کے جس طرح سے بیانات آ رہے ہیں اس کے پیش نظر اس بات میں کوئی شک نہیں رہ جاتا کہ یہ ساری کوششیں نواز شریف کی وطن واپسی کے لیے ہو رہی ہیں لیکن جتنی بھی قانون سازی ہو رہی ہے یہ غیر آئینی ہے کیوں کہ کسی آئینی ترمیم کے لیے 2 تہائی اکثریت چاہیے جو اس وقت پارلیمنٹ کے پاس نہیں۔

اکرام چوہدری نے کہا کہ یہ سارے معاملات عدالتوں ہی میں ہیں اور اگر اس قانون سازی کا اطلاق مؤثر بہ ماضی کیا جاتا ہے تو ایک نیا پینڈورا باکس کھل جائے گا اور بہت سے سزا یافتہ لوگ اس قانون سازی سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے۔

سینیئر وکیل کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں ساری قانون سازی کا مرکز و محور نواز شریف ہیں لیکن جب بھی وہ وطن واپس آئیں گے انہیں احتساب عدالت کی طرف سے دی جانے والی سزا کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp