بھائی یہاں توکھانے کو زہر بھی نہیں ملتا، بحری جہاز کے انتظار میں 5 ماہ سے بھوک، پیاس اورتشدد برداشت کر رہا ہوں، اب تو میری ہمت بھی جواب دے چکی ہے۔
یہ وہ الفاظ تھے جو بارہویں جماعت پاس کرنے کے فوراً بعد غیر قانونی طریقے (ڈنکی ) سے یورپ جانے والے اویس آصف نے آخری بار اپنے گھر والوں سے فون پر کہے۔
اُس وقت وہ لیبیا میں ‘سیف ‘کہلائے جانے والے ایک چھوٹے کمرے میں 40 دیگرتارکین وطن کے ساتھ قید تھا۔ اِس فون کے بعد صبر آزما انتظار کا ایک دور شروع ہوا۔ اویس کا یورپ جانے والے بحری جہاز پر سوار ہونے کا انتظاراورپھر اس کے گھروالوں کا اپنے بچے کی خیریت سے منزل پر پہنچ جانے کی خبر کا انتظار، یہ طویل انتظار یونان میں کشتی الٹنے کی اندوہناک خبر پر ختم ہوا۔
اویس کا تعلق آزاد کشمیر کے ضلع کوٹلی کی تحصیل کھوئی رٹہ کے گاؤں بنڈلی سے ہے۔ اِن کے علاوہ تحصیل کھوئی رٹہ سے 27 دیگر نوجوان ’سہانے مستقبل‘ کے خواب لیے یورپ کی طرف روانہ ہوئے تھے۔
ڈپٹی کمشنر کوٹلی کی جانب سے جاری کردہ فہرست کے مطابق ان 27 نوجوانوں میں سے 22 اس بدقسمت کشتی پر سوار تھے جو بدھ کو بحیرہ روم میں یونان کے ساحل کے قریب ڈوب گئی۔ واقع کی اطلاع سے پورے علاقے میں صفِ ماتم بچھ گئی۔ ایک ہی خاندان کے 4، 4 افراد اس حادثے میں لقمہ اجل ہوئے۔
‘میرا بچہ میرے پیٹ میں ہی یتیم ہو گیا’
اویس کے تایا زاد بھائی انیس مجید نے وی نیوز کو بتایا کہ ہمارے 2 تایا زاد بھائی توقیر پرویز اور عبدالجبار بھی ان 750 تارکین وطن میں شامل تھے، جن کی امیدوں کے چراغ بحیرہ روم کے یخ پانیوں نے بجھا دیے۔ ان کے ہمراہ ہمارے پھوپھی زاد بھائی ساجد یوسف بھی تھے جنہوں نے اویس کی روانگی کے تقریباً 4 ماہ بعد اپنا گھربارچھوڑ دیا۔
انیس کوٹلی یونیورسٹی میں قانون کے طالب علم ہیں۔ ان کے مطابق عبدالجبار کی 2 بیٹیاں ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کے کچھ سال ہی باپ کی شفقت و محبت میں گزارے ہوں گے۔ توقیر کا دُکھ ان کے گھر والوں کے ساتھ ساتھ علاقے کے لوگوں کو بھی کھائےجا رہا ہے۔
توقیر کی شریکِ حیات کے ہاں بچے کی پیدائش متوقع ہے اور اس حالت میں انہیں سہاگ اجڑنے اور بچے کا دُنیا میں آنے سے پہلے ہی یتیم ہوجانے کا دکھ کھائے جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سمند میں اکثر ریسکیو آپریشن ناکام کیوں ہوتے ہیں؟
ہمارا دکھ کون بانٹے؟
انیس نے نم آنکھوں اور بجھے ہوئے لہجے میں کہا کہ ہمارا دکھ سمجھنے اور بانٹنے کے بجائے یہاں ڈوب جانے والوں کو ہی دوش دیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپنے والدین، بیوی بچوں اور علاقے کو چھوڑ کر جانا آسان نہیں ہوتا، مجبوریاں ہی ہوتی ہیں جوایسا فیصلہ لینے پر مجبور کرتی ہیں۔ لیکن ان مجبوریوں اورعوامل پر کوئی غور نہیں کرتا۔ غیر قانونی ہجرت کا قلع قمع کرنے سے پہلے اس کی وجوہات کا خاتمہ ضروری ہے۔
22 لاکھ روپے کہاں سے آئے؟
جب انیس سے پوچھا گیا کہ غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر پُر خطر طریقے سے یورپ جانے والوں کے پاس انسانی اسمگلر کو دینے کے لیے اتنے پیسے کہاں سے آئے تو ان کا کہنا تھا کہ ایجنٹ کو دو قسطوں میں 22 لاکھ روپے فی کس ادا کیے۔
ساجد کے بارے میں بتایا گیا کہ انہوں نے اپنے یورپ میں بسنے والے بڑے بھائیوں سے پیسے لیے جبکہ توقیر، عبدالجبار اور اویس نے کسی سے 5 اور کسی سے 10 ہزار ادھار لے کر ساری رقم اکٹھی کی۔ یہ سارے میرپور کے مزرا طارق نامی ایجنٹ کے ذریعے جار ہے تھے جس نے ہر ایک سے 8 لاکھ روپے ایڈوانس لیے اور لیبیا میں جہاز پر سوار ہونے سے قبل پوری رقم کا مطالبہ کیا۔ اویس اور شمریز گلریز بقایا رقم ادا نہ کر سکے تو انہیں لیبیا میں ہی 5 مہینے تک قید میں رکھا گیا، بعد میں مکمل ادائیگی کرنے پر ہی انہیں کشتی پر سوارکیا گیا۔
‘میں روز مار نہیں کھا سکتا، واپس آ رہا ہوں’
لیبیا میں قید شمریز گلریزنے اپنی اہلیہ کو فون پر بتایا کہ ایجنٹ کے ساتھ فون پر ان کی تلخ کلامی ہوگئی ہے۔ ایجنٹ نے سفر سے متعلق سراسر جھوٹ بولا ہے ۔ یہاں مجھے ایک چھوٹے سے کمرے میں 40 سے 50 لوگوں کے ساتھ قید میں رکھا ہوا ہے۔ کھانے کو کچھ ملتا ہے نہ پینے کو، میں نے ایجنٹ سے شکایت کی تو اس نے مجھے فون پر بہت بُرا بھلا کہا اور اب یہ ایجنٹ یہاں اپنے کارندوں کے ذریعے ہر روزمجھ پر تشدد کرواتا ہے۔
شمریز نے مزید بتایا کہ اگر یہاں باقی لوگوں کو تھوڑا بہت روٹی پانی ملتا ہے تو مجھے اس سے بھی محروم رکھا جا رہا ہے۔ بھوکا پیاسا رہ رہ کر بہت ہی کمزور ہوگیا ہوں، روزانہ مار کھانے کی اب طاقت نہیں رہی، کچھ روز مزید انتظار کرتا ہوں اگر بحری جہاز پر سوار نہ کیا تو میں واپس آ جاؤں گا۔
لوگ موت کے منہ میں جاتے کیوں ہیں؟
انیس کے بقول غربت، بے یقینی اور معاشرتی دباؤ نوجوانوں کو موت کی کشتی پر سوار ہوکر یورپ ہجرت کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو جب روزگار اور بہتر مستقبل کے مناسب مواقع میسر نہیں آتے تو وہ مایوسی اور غیر یقینی کا شکار ہوتے ہیں جب کہ رہی سہی کسر سوشل میڈیا اوردیکھا دیکھی پوری کر دیتی ہے۔
انسانی سمگلنگ کے گھناؤنے کاروبار سے منسلک لوگ سوشل میڈیا اور واٹس ایپ کے ذریعے یورپ کی دلکش طرزِ زندگی کو اجاگر کرتی ویڈیوز پھیلاتے ہیں، جنہیں دیکھ کر ہمارے نوجوان ’ڈنکی‘ لگانے پر مائل ہو جاتے ہیں۔
انیس کے مطابق غیر قانونی ہجرت میں حکامِ بالا بھی ملوث ہیں کیوں کہ یہی تارکینِ وطن زرمبادلہ کمانے کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ ان کا ماننا تھا کہ اگرآزاد کشمیر کے وسائل اس خطے پر ہی لگائے جائیں توخوشحالی آ سکتی ہے اور کشمیری نوجوانوں کو بیرونِ ملک جانے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔
وی نیوز سے فون پر بات کرتے ہوئے انگلینڈ کے شہر برمنگھم میں مقیم کوٹلی کی تحصیل سہنسہ کے عامر خان کا کہنا تھا کہ انسانی اسمگلر ہمارے نوجوانوں کی نفسیات سے کھیلتے ہیں۔ عامر خان خود ایک برٹش کمپنی میں بطورمینیجر کام کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ انسانی اسمگلر بے روزگار اور غریب نوجوانوں کو باہر کے کھاتے پیتے گھرانوں کے افراد کی ساحلِ سمندر اور نائٹ کلبز کی ویڈیوز دکھا کر شیشے میں اتاردیتے ہیں۔ اس کے علاوہ جو غریب نہیں ہوتا اُسے عیاشی کا سامان دکھا کر یورپ آنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔
‘یہاں بھی بے روزگار ہیں، کام دلوا دو بھائی’
جرمنی میں مقیم راولاکوٹ کے شہری ڈاکٹر محمد ظہیر نے وی نیوز کو بتایا کہ ایک بار انہیں جرمنی کے قصبے بیرؤتھ میں نمازِ جمعہ کے بعد 2 پاکستانی نوجوان ملے، جو یونان کے رستے غیر قانونی طریقے سے جرمنی میں داخل ہوئے تھے۔
وہ 4 ماہ سے پناہ گزینوں کے لیے قائم کردہ ایک حکومتی کیمپ میں مقیم تھے۔ ان کے پاس کوئی شناختی دستاویزتک نہ تھی اور وہ اپنی شہریت بھی نہیں بتا رہے تھے۔ مجھے انہوں نے فون پر اردو میں بات کرتے ہوئے سنا تو میرے پاس آئے اور سارا ماجرا سنا دیا اورروزگار لگوانے کی درخواست کی۔ غیر قانونی ہونے کے باعث وہ نوکری بھی نہیں کر سکتے تھے۔ وہ جرمن زبان سے بھی انجان تھے اور ان کے پاس کوئی ہنرتھا نہ ہی اعلیٰ تعلیم۔
‘کتے نہلانا تو بہت اچھا کام ہے’
انسانی اسمگلرز کے بہکاوے میں آکر غیر قانونی طریقے سے یورپ جانے والوں کا بہت استحصال کیا جاتا ہے۔ انتہائی کم اجرت پر دن رات کام لیا جاتا ہے اور کام بھی اس نوعیت کا کروایا جاتا ہے جو لیگل ورکرز کسی بھی صورت کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔
’ڈنکی‘ لگا کر گئے ہوئے راولاکوٹ کے ایک نوجوان نے وی نیوز کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ میرے گھر والے اور دوست احباب تصور بھی نہیں کرسکتے کہ مجھےیہاں کس قسم کے کام کرنے پڑتے ہیں۔
اس نے بتایا کہ ہمیں کتنے گندے کام کرنے پڑتے ہیں یہ کسی کو معلوم نہیں، اس کا اندازہ آپ صرف اس بات سے ہی لگا لیں کہ اب تک مجھے جو سب سے اچھا کام ملا، وہ کتے نہلانے کا تھا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اوّل توغیر قانونی تارکین وطن کو کام نہیں ملتا اور اگر مل بھی جائے تو بہت غلیظ اور کم اجرت والا کام ملتا ہے جب کہ کام کے بعد اجرت ادا نہ کرنا یہاں عام سی بات ہے۔ میں نے قرض لے کرایجنٹ کو رقم ادا کی تھی، جس دن یہ قرض ختم ہوا، میں گرفتاری دے دوں گا اور ڈی پورٹ ہو کر اپنے وطن واپس چلا جاؤں گا۔
’ڈنکی‘ کا سدِ باب کیسے کریں؟
انگلینڈ کے شہر برمنگھم میں مقیم کشمیری نژاد ڈاکٹر نعیم یوسف کا کہنا تھا کہ پاکستان اور آزاد جموں کشمیر کے بہت سے نوجوان کسی بھی طریقے سے یورپ میں داخل ہونے کے خواہش مند ہیں۔ ماضی میں کئی المناک واقعات اور ’ڈنکی‘ سے جڑے خطرات جاننے کے باوجود وہ یورپ جانے کی خواہش دل میں لیے بیٹھے ہوتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ نوجوانوں کی یورپ بارے خوش فہمی اوراس سے جڑی توقعات ان کی ہرخواہش پر بھاری ہیں۔ وہ شاید سوچتے ہیں کہ جب وہ کسی یورپی ملک میں داخل ہوں گے تو سب اچھا ہو جائے گا۔
نوجوان ان ناموافق حالات سے واقف نہیں ہیں جن سے انہیں یورپ آمد پر گزرنا پڑتا ہے۔ ان میں سے بہت سے لوگوں کے پاس کوئی مہارت نہیں ہے اور وہ بنیادی انگریزی یا کسی یورپی ملک کی زبان بھی نہیں جانتے ہیں۔
ان میں سے تقریباً سبھی نوجوان یورپی ممالک میں غیر قانونی طور پر آنے کے بعد پچھتاتے ہیں لیکن جب انہیں احساس ہوتا ہے کہ وہ پھنس گئے ہیں، تب واپسی کی راہیں بھی مسدود ہو چکی ہوتی ہیں ۔ آخر کاروہ سیاسی پناہ اورریاستی فوائد کے لیے درخواست دیتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر کا جنسی استحصال ہوتا ہے جب کہ کئی جدید دور کی غلامی کا شکار ہو جاتے ہیں، باقی ماندہ نشے کے عادی اور منشیات کے کاروبار سے منسلک ہونے پرمجبورہو جاتے ہیں۔
یورپ کے لوگوں کے دلوں میں ان تارکینِ وطن کے لیے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ وہ تواب قانونی طریقے سے آئے ہوئے غیر ملکیوں کو بھی برداشت نہیں کر رہے۔ یورپ کے لوگوں کا ماننا ہے کہ ان غیر قانونی تارکین وطن کے لیے ہم ٹیکس دہندگان کی رقم استعمال ہو رہی ہے لٰہذا وہ ان کے یورپ آنے کے سخت خلاف ہیں۔ ڈاکٹر نعیم کے مطابق ’ڈنکی‘ کی حوصلہ شکنی کرنے کے لیے تعلیم، شعور اور بہتر روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ قانون کے کما حقہ نفاذ کی اشد ضرورت ہے۔