صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے 21 جون 2023 کو سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بطور چیف جسٹس آف پاکستان تعیناتی کی منظوری دے۔ تعیناتی کا اطلاق 17 ستمبر 2023 کو موجودہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی ریٹائرمنٹ سے ہوا، یوں آج جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے بطور چیف جسٹس سپریم کورٹ اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا۔
صدر مملکت نے آئین کے آرٹیکل 177 کے تحت چیف جسٹس آف پاکستان کے تقرر کی منظوری دی۔ جسٹس قاضی فائز عیسٰی 17 ستمبر 2023 سے اکتوبر 2024 تک پاکستان کے 29 ویں چیف جسٹس ہوں گے۔
یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے خلاف سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس تو 19 جون 2020 کو خارج کر دیا تھا لیکن بعد میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے ایک کیوریٹو ریویو (نظرثانی) دائر کیا۔ پی ٹی آئی حکومت کی رخصتی اور پی ڈی ایم حکومت آنے کے بعد وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ سے یہ درخواست واپس لینے کی استدعا کی تھی۔
بعدازاں 21 جولائی کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کیوریٹو ریویو خارج کرتے ہوئے چیمبر سماعت کا 13 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کردیا۔
عدالت عظمیٰ کے 13 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ وفاقی حکومت کی درخواست منظورکرتے ہوئے جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے خلاف کیوریٹوریویو واپس لینے پر نمٹائی جاتی ہے۔
صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران ایک وقت ایسا بھی تھا جب یہ محسوس ہوتا تھا کہ شاید جسٹس قاضی فائز عیسٰی کا بطور جج سپریم کورٹ سفر یہیں پر ختم ہو جائے گا لیکن وہ نہ صرف اس صدارتی ریفرنس کا کامیابی سے دفاع کر پائے بلکہ صدر مملکت نے ان کی بطور چیف جسٹس سپریم کورٹ تعیناتی کی منظوری بھی دی اور پھر ان سے آج حلف بھی لیا۔
تقریباً 3 ماہ قبل تقرری کی منظوری کیوں ہوئی؟
آئینی اور قانونی امور کے ماہر جی ایم چوہدری ایڈووکیٹ نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عہدے کا چارج سنبھالنے سے 3 ماہ قبل تعیناتی کی منظوری ایک غیر معمولی اقدام ہے اور روایتی طور پر ایسا نہیں ہوتا۔ عام طور پر چیف جسٹس آف پاکستان کے بعد سینیئر موسٹ جج کے بارے میں سب کو معلوم ہوتا ہے کہ وہی مستقبل کے چیف جسٹس ہیں۔ اگر چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے کی میعاد ختم ہو جائے تو سپریم کورٹ کے سینیئر موسٹ جج خود بخود قائم مقام چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اٹھا لیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس کی تعیناتی کوئی پیچیدہ قانونی عمل نہیں بلکہ وزیراعظم کے دفتر سے ایک سمری صدر مملکت کو بھجوائی جاتی ہے جس پر صدر مملکت دستخط کے بعد چیف جسٹس کی تعیناتی کی منظوری دیتے ہیں۔
جی ایم چوہدری ایڈووکیٹ نے کہا کہ وزیراعظم اپنی بھیجی گئی سمری کو واپس لینے کا اختیار بھی رکھتے ہیں۔
تنازعات
جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے بطور جج فیصلوں پر تنازعات بھی ہوتے رہے اور ایسا ہی ایک فیصلہ انہوں نے اکتوبر 2018 میں نیب کی حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس دوبارہ کھولنے سے متعلق اپیل مسترد کر کے دیا تھا۔ نیب سپریم کورٹ کے بینچ جس کی سربراہی جسٹس قاضی فائز عیسٰی کر رہے تھے سے اپیل کر رہا تھا کہ 18 سال پرانا نیب ریفرنس دوبارہ سے کھولنے کی اجازت دی جائے۔ جس پر جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ نیب کے پاس یہ ریفرنس دوبارہ سے کھولنے کے لیے کوئی مضبوط جواز نہیں اور اپیل مسترد کر دی تھی۔ اس ایشو پر کچھ سیاسی جماعتوں کی جانب سے ان کو سوشل میڈیا پر ٹرول کیا گیا۔
تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے فیض آباد پل پر دیے گئے دھرنے کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے پر بھی کچھ عناصر کی جانب سے تنازعہ کھڑا کیا گیا۔ فیصلے میں جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے سیکیورٹی ایجنسیوں کے کردار پر تنقید کی تھی اور میڈیا پر لگائی گئی پابندیوں کو بھی اظہار رائے کی آزادیوں کے خلاف قرار دیا تھا۔
فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کے 3 ماہ بعد جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ایک صدارتی ریفرنس دائر کیا گیا جس میں الزام لگایا گیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے اپنی اہلیہ کے نام جائیدادیں اپنے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیں۔ صدارتی ریفرنس توجون 2020 میں ختم ہو گیا اور اپریل 2022 میں اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے اعتراف کیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ک خلاف ریفرنس بھیجنا ان کی غلطی تھی۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی کا خاندانی پس منظر
سپریم کورٹ کے سینیئر پیونی جج، جسٹس قاضی فائز عیسٰی 26 اکتوپر 1959 کو کوئٹہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے آباوٗ اجداد کا تعلق افغانستان کے شہر قندھار سے ہے۔ ان کے دادا قاضی جلال الدین انیسویں صدی کے اواخر میں قندھار سے ہجرت کر کے کوئٹہ میں آباد ہوئے۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے والد قاضی محمد عیسٰی تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن اور آل انڈیا مسلم لیگ بلوچستان چیپٹر کے صدر تھے۔ معروف سفارت کار اشرف جہانگیر قاضی ان کے فرسٹ کزن ہیں۔
تعلیم
قاضی فائز عیسٰی نے اپنی ابتدائی اور ثانوی تعلیم کوئٹہ جبکہ او لیولز اور اے لیولز کے امتحانات کراچی گرامر اسکول سے پاس کیے۔ اس کے بعد انہوں نے لندن سے قانون کے مضمون میں بی اے آنرز کیا۔
پروفیشنل کیریئر
جسٹس قاضی فائز عیسٰی 30 جنوری 1985 کو بطور وکیل بلوچستان ہائی کورٹ جبکہ 21 مارچ 1998 کو بطور وکیل سپریم کورٹ آف پاکستان انرول ہوئے۔ بطور جج تعیاتی سے قبل انہوں نے 27 سال ملک کی تمام ہائی کورٹس اور فیڈرل شریعت کورٹ میں وکالت کی اور مختلف اوقات میں بطور عدالتی معاون ذمے داریاں بھی ادا کیں۔ انہوں نے بین الاقوامی مقدمات میں بطور ثالث بھی کام کیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی میڈیا سے دلچسپی
ہائی کورٹ کا جج بننے سے قبل وہ باقاعدگی سے انگریزی اخبارات میں آرٹیکلز بھی لکھا کرتے اور دلچسپ بات یہ کہ انہوں نے ماس میڈیا لاز اینڈ ریگولیشنز ان پاکستان کے نام سے ایک کتاب بھی تصنیف کر رکھی ہے۔ 2018 میں فیض آباد دھرنا کیس میں انہوں نے ٹیلی وژن چینلوں کی بندش کا نوٹس بھی لیا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی اسلامی تعلیمات سے خاص لگاؤ رکھتے ہیں اور اپنے عدالتی فیصلوں میں اکثر قرآنی آیات اور احادیث کا ذکر کرتے ہیں۔
بطور چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ
جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے جنرل پرویز مشرف کی جانب سے 3 نومبر 2007 کو ایمرجنسی کے نفاذ کے خلاف بطور احتجاج پی سی او کے تحت حلف لینے والے ججز کے سامنے پیش ہونے سے انکار کر دیا۔ جب جولائی 2009 میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایمرجنسی کے نفاذ کو خلاف آئین قرار دیا تو بلوچستان ہائی کورٹ کے تمام جج صاحبان مستعفی ہو گئے اور بلوچستان ہائی کورٹ میں ایک آئینی خلا پیدا ہو گیا۔ اس وقت فائز عیسٰی کو براہِ راست بطور چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ تعینات کر دیا گیا۔ جس کے بعد ان کی مشاورت سے بلوچستان ہائی کورٹ میں ججوں کا تقرر عمل میں آیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی براہِ راست چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ تقرری پر کافی وکلا معترض بھی تھے اور جب 2012 میں میمو گیٹ جوڈیشل کمیشن کی سربراہی جسٹس قاضی فائز عیسٰی کو سونپی گئی تو کئی وکلا جن میں مرحومہ عاصمہ جہانگیر بھی شامل تھیں جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی بطور چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ تعیناتی پر معترض رہتے۔
بطور سپریم کورٹ جج
جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے 5 ستمبر 2014 کو بطور جج سپریم کورٹ آف پاکستان اپنے عہدے کا حلف لیا۔ 8 اگست 2016 کو کوئٹہ میں ہوئے دہشت گرد حملے جس میں شہدا کی زیادہ تعداد کا تعلق وکلا برادری کے ساتھ تھا، جسٹس قاضی فائز عیسٰی کو بطور سنگل جج کمیشن مقرر کیا گیا جس کی رپورٹ انہوں نے 13 دسمبر 2016 کو جمع کرائی۔ اس سے قبل 2012 میں وہ میمو گیٹ اسکینڈل جوڈیشل کمیشن کی سربراہی بھی کر چکے ہیں۔