فوجی عدالتوں کا معاملہ: جب کمرہ عدالت جرگے میں تبدیل ہوگیا

جمعرات 22 جون 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ آف پاکستان کے کورٹ روم نمبر ون جمعرات کو ایک بار پھر غیر معمولی کیس کی سماعت کے لیے تیار تھا۔ اس بار نہ صرف اس کمرے میں بیٹھے ججز ایک اہم نوعیت کا مقدمہ سننے کے لیے آئے تھے بلکہ چیف جسٹس آف پاکستان اور جسٹس قاضی فائز عیسی ایک ہی بینچ میں پہلی مرتبہ کسی درخواست کی سماعت کرنے والے تھے۔

بنچ میں شامل 9ججز کے کمرہ عدالت میں آنے سے قبل ہی کورٹ روم نمبر ون کھچا کھچ بھر چکا تھا۔

سماعت کے آغاز پر وکیل لطیف کھوسہ روسٹرم پر آئے اور کچھ گزارش کرنا چاہی تو جسٹس قاضی فائز عیسی نے انہیں جھاڑ کر کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب! آپ آئیں، میں کچھ گزارشات کرنا چاہتا ہوں۔ لطیف کھوسہ نے کہا’ میں اپنی خوشی کا اظہار کرنا چاہتا تھا‘ تو جسٹس قاضی فائز عیسی کی آواز تھوڑی بلند ہوئی اور کہا’یہ خوشی کا اظہار کرنے کا فورم نہیں ہے‘۔

جسٹس قاضی فائز عیسی کے ابتدائی ریمارکس سے ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ اب غیر معمولی سماعت ہونے والی ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسی کے ریمارکس اور ججز کے تاثرات

جسٹس قاضی فائز عیسی نے اپنی آبزرویشن کا آغاز اردو زبان میں کیا۔ ابتداء میں چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسی کی جانب سے دیے جانے والے حوالے جات کا غور سے مطالعہ کررہے تھے لیکن جب آبزرویشن طویل ہوئی تو چیف جسٹس نے سامنے رکھا پانی کا گلاس پیا اور کرسی سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔

چیف جسٹس کے چہرے پر مایوسی عیاں تھی جبکہ ان کے بائیں جانب بیٹھے جسٹس سردار طارق مسعود قاضی فائز عیسی کے جانب سے دیے جانے والے حوالوں کو بغور پڑھنے لگے۔

جسٹس اعجاز الحسن اپنے چہرے کے نیچے ہاتھ رکھ کر کمرہ عدالت میں موجود وکلاء کی جانب دیکھ رہے تھے، جسٹس منصور علی شاہ کی نظریں کمرہ عدالت کی چھت اور سامنے گیسٹ گیلیرز کی جانب ٹکی ہوئی تھیں۔ جسٹس عائشہ ملک کے چہرے پر مسکراہٹ عیاں تھیں اور پھر وہ ساتھ بیٹھے جج کے کان میں سرگوشی کرتی نظر آئیں۔

جب کورٹ روم میں جرگے کا سماں تھا

جسٹس قاضی فائز عیسی کی آبزرویشن ختم ہوئیں تو پٹیشنر اعتزاز احسن اور سردار لطیف کھوسہ نے اپنی گزارشات رکھنا چاہیں لیکن جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ میں اس پر بحث نہیں کرنا چاہتا۔

اعتزاز احسن بار بار اصرار کرتے رہے کہ ان لوگوں کا کیا ہوگا جو فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا سامنا کریں گے۔ اس پر جسٹس طارق مسعود نے اپنے ریمارکس دیے تو سردار لطیف کھوسہ نے ہاتھ جوڑ کر کہا’ عوام پر رحم کریں‘۔

کمرہ عدالت میں ماحول اس وقت جرگے کی شکل اختیار کر گیا جب درخواست گزار اعتزاز احسن بولے’ میں عمر میں اتفاق آپ سب سے بڑا ہوں، چھوٹے بھائیوں کا کہوں گا کہ گھر میں اگر رنجشیں ہوں تو اس مسئلے کو حل کرنا چاہیے‘۔

اس دوران ججز اور روسٹرم پر موجود وکلا کے درمیان باقاعدہ تکرار ہونے لگی، تمام وکلا بھی اپنی کرسیوں سے کھڑے ہوگئے۔ کمرہ عدالت میں قاضی فائز عیسی اور وکلاء کی آواز بھی بلند ہونا شروع ہوگی۔

جسٹس قاضی فائز عیسی نے ساتھ ہی بیٹھے چیف جسٹس کی طرف چہرہ موڑا اور ان کی طرف دیکھے بغیر کہا’ میں اٹھ رہا ہو، ایسے تکرار میں نہیں سن سکتا‘۔
جس پر چیف جسٹس نے انہیں بیٹھنے کو کہا اور اعتزاز احسن اور لطیف کھوسہ سے درخواست کی ہم اس مسئلہ کا حل نکالتے ہیں۔ جج صاحب کے موقف کا بھی ہمیں احترام کرنا ہوگا۔

جب تکرار ختم نہ ہوئی تو جسٹس قاضی فائز عیسی اپنی کرسی سے اٹھ کھڑے ہوئے ، دیگر تمام ججز اپنی کرسی پر بیٹھے رہے۔ چیف جسٹس نے حالات کو قابو میں کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس مسئلہ کا حل نکالتے ہیں، جس کے بعد چیف جسٹس اپنی کرسی سے اٹھے اور ساتھ ہی دیگر 7ججز بھی اٹھ گئے۔ اور کمرہ عدالت سے روانہ ہوگئے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp