روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی حکمرانی کو لاحق سب سے ہولناک چیلنجوں میں سے ایک کا اس وقت خاتمہ ہوگیا جب گزشتہ روز روس میں پرائیویٹ آرمی ویگنر گروپ کے سربراہ یفگینی پریگوزن نے ماسکو پر اپنی یلغار روکتے ہوئے بیلاروس میں جلاوطنی اختیار کرنے کی حامی بھرلی۔
ویگنر کے سربراہ یفگینی پریگوزن نے اپنے کرائے کے فوجیوں کو ماسکو کی جانب پیش قدمی آخری وقت پر روکنے کا حکم اس جواز کے ساتھ دیا کہ روسی خون بہانے سے بچا جاسکے اور خود بیلاروس میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر رضامندی ظاہر کردی-
دارالحکومت ماسکو سے صرف 200 کلومیٹرکے فاصلے پر موجود روسی جنگجوؤں کے سپہ سالار پریگوزن نے ہفتے کے روز پیش قدمی روکنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ ان کی ملیشیا ہلاکتوں سے گریزکرتے ہوئے پسپائی اختیار کررہی ہے۔
اپنے ایک اہم آڈیو پیغام میں یفگینی پریگوزن نے روسی وزارت دفاع پر ویگنر ملٹری کمپنی کو ختم کرنے کا الزام عائد کیا۔’ہم نے 23 جون کو انصاف کی خاطر مارچ کا آغاز کیا۔ اب خون بہانے کا وقت آچکا ہے۔۔۔ اس ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے کہ ایک طرف روسی خون بہے گا، ہم اپنی صفوں کا رخ موڑ رہے ہیں اور منصوبہ بندی کے مطابق فیلڈ کیمپوں میں واپس جا رہے ہیں۔‘
ماسکو کا منظر
دوسری جانب ماسکو نے ویگنر پرائیویٹ آرمی کے ممکنہ جارحانہ رد عمل کے پیش نظر اپنے جنوبی کنارے پر بکتر بند گاڑیوں اور فوجیوں کے ساتھ چوکیاں بنا کر ممکنہ حملہ کو پسپا کرنے کی تیاریاں مکمل کرلی تھیں۔ ریڈ اسکوائر کو آمد و رفت کے لیئے بند کرتے ہوئے میئر نے ڈرائیوروں کو کچھ سڑکوں سے دور رہنے کی تاکید بھی کر رکھی تھی۔
ویگنر پرائیویٹ آرمی کی بجلی جیسی سرعت کے ساتھ بغاوت کو روس کی باقاعدہ مسلح افواج کی جانب سے بہت کم مزاحمت کا سامنا کرتا ہوا دیکھا گیا، جس نے ویگنر گروپ کی ماسکو پیش قدمی کو اچانک روک دیے جانے کے بعد بھی جوہری ہتھیاروں سے لیس ملک میں اقتدار پر صدر پیوٹن کی گرفت کے بارے میں سوالات اٹھادیے ہیں۔
بیلا روس کی کامیاب مصالحت
بیلاروسی رہنما الیگزینڈر لوکاشینکو نے روسی صدر پوٹن سے ممکنہ خانہ جنگی پر بات چیت کے بعد باغی ویگنر گروپ آرمیکی نقل و حرکت کو روکنے کے لیے یفگینی پریگوزن کامیاب مذاکرات کیے، جنہوں نے ویگنر گروپ کی پیش قدمی کو روکنے اور تناؤ کو کم کرنے کے لیے مزید اقدامات کی لوکاشینکو کی پیشکش کو قبول کر لیا۔
مزید پڑھیں
لوکاشینکو کی جانب سے اس تجویز کردہ تصفیے میں ویگنر کے فوجیوں کے لیے حفاظتی ضمانتیں بھی شامل ہیں۔ کریملن کے مطابق ویگنر گروپ کے سربراہ سے معاہدے کے ایک جز کے مطابق وہ ہمسایہ ملک بیلاروس جلا وطن ہوجائیں گے اور ان کے خلاف روس میں فوجداری مقدمہ بند کر دیا جائے گا۔
کریملن کا موقف
کریملن نے کہا ہے کہ اس نے خونریزی سے بچنے کے لیے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کو کھلا چیلنج دیے والے ویگنر گروپ سے معاہدہ کرلیا ہے۔ ’پریگوزن کے جو فوجی بغاوت میں اس کے ساتھ شامل ہوئے تھے انہیں قانونی چارہ جوئی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا جب کہ دیگر کو وزارت دفاع کی جانب سے معاہدے کی پیشکش کی جائے گی۔‘
کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا کہ خونریزی، اندرونی تنازعات اور جھڑپوں سے بچنا سب سے بڑا ہدف تھا۔’بیلاروس کے صدر الیگزینڈر لوکاشینکو کی ثالثی کی کوششوں کا مقصد اس ہدف کو حاصل کرنا تھا۔ ویگنر کے ساتھ معاہدہ خونریزی سے بچنے کے لیے کیا گیا۔‘
ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا کہ الیگزینڈر لوکاشینکو نے صدر پیوٹن کو پریگوزن سے معاہدے کے ساتھ ثالثی کی پیشکش کی، کیونکہ وہ پرگوزین کو ذاتی طور پر تقریباً 20 سال سے جانتے تھے۔ ’خونریزی، اندرونی محاذ آرائی، اور غیر متوقع نتائج کے ساتھ جھڑپوں سے بچنا سب سے بڑا مقصد تھا جو حاصل کرلیا گیا ہے۔‘