صدیوں کے پڑوسی ایران سے پاکستان کے لیے 5 سبق

منگل 23 اپریل 2024
author image

وسیم عباسی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ایران کے صدر جناب ابراہیم رئیسی کے تاریخی دورہ پاکستان کی مناسبت سے یہ تحریر مکرر شائع کی جا رہی ہے۔

گزشتہ دنوں 5 نامور پاکستانی صحافیوں کے ساتھ ایران کے 7 روزہ دورے کا موقع ملا۔ سفر کے لیے روانگی کے وقت ہمارے اذہان میں ایران کا خاکہ پابندیوں کے شکار ایک ایسے ملک کا تھا جو مشکل سے گزارا کر رہا ہے۔ تاہم تہران کے انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر شاندار سہولیات دیکھ کر اس تاثر کو کچھ دھچکا لگا مگر اگلے ہی لمحے واٹس ایپ، ٹوئٹر سمیت امریکی ایپلی کیشن کی بندش نے پہلا تاثر بحال کر دیا کہ یہ ملک ہماری دنیا سے کٹا ہوا اور اپنی الگ دنیا میں مست ہے۔

سادگی، سنجیدگی اور وقار کا امتزاج

ایئرپورٹ سے ہوٹل تک راستے میں ہر جگہ یہ محسوس ہوا کہ اس شہر میں باقی دنیا کے  دارالحکومتوں کی طرح انگریزی کے جگمگاتے بل بورڈز نہیں جن پر خواتین ماڈلز کی تصاویر نمایاں ہوتی ہیں۔

فضا میں ایک خاص نوعیت کی سادگی سے بھرپور وقار واضح محسوس کیا جا سکتا تھا، حتیٰ کے فائیو اسٹار ہوٹل کے اندر بھی تمام عمدہ سہولیات کے باوجود سادگی اور سنجیدگی کا عنصر غالب تھا۔

اس وقت ہمیں معلوم نہیں تھا کہ اگلے 7 دنوں میں ہماری سوچ اور تاثرات کو بڑے دھچکے لگنے والے تھے۔

’موزه ملی ایران

چند گھنٹے آرام کے بعد ہمیں ایران کے تاریخی عجائب گھر لے جایا گیا۔ فارسی جدید یا ایرانی فارسی میں عجائب گھر کو ’موزہ‘ کہتے ہیں۔ یوں ایران کا قومی عجائب گھر ’ موزه ملی ایران‘ کہلاتا ہے۔

ایران میں عجائب گھروں کی نوعیت کے اعتبار سے ان کے نام بھی خاصے بھلے معلوم ہوئے مثلاً پانی اور مٹی کے برتنوں کا عجائب خانہ ’ موزه آبگینه و سفالینه ‘ کہلاتا ہے تو رنگ برنگ اور حیران کن نقوش سے مزیّن قالینوں کے عجائب گھر کو ’ موزه فرش ایران ‘ کہا جاتا ہے۔ پھر  خراسان کے ’گرینڈ میوزیم‘ کو اگر ’ موزه بزرگ خراسان‘ پکارا جاتا ہے تو قومی زیورات کا عجائب کدہ ’ موزه جواهرات ملی‘ کہلاتا ہے۔الغرض یہاں طرح طرح کے عجائب گھر ہیں جو شائقین کو دعوتِ نظارہ دے رہے ہیں۔

ایران کا قومی عجائب گھر ’ موزه ملی ایران‘ کہلاتا ہے۔

’ انگشت بدندانی‘

اب واپس ایران کے تاریخی عجائب گھر پر آتے ہیں کہ جہاں پہنچ کر ہم حقیقتاً کچھ ایسے انگشت بدنداں ہوئے کہ آنے والے دنوں کا ہر لمحہ ’ انگشت بدندانی‘ پر مجبور کرتا ہے۔ ویسے اس میں زیادہ کمال ایران کے ان نو بنو پکوانوں کا تھا جو ’دست و دہن‘ کے درمیان فاصلہ کسی طور کم نہیں ہونے دے رہے تھے۔

ایرانی کھانے انتہائی خوش مزا اور خوش شکل ہوتے ہیں۔

’خیابانِ غذا‘

عجائب گھر کے بعد ہمیں تہران کی روایتی ’خیابانِ غذا‘ لے جایا گیا۔ جی ہاں یہ وہی خیابان جو ہمارے ہاں ’ فوڈ اسٹریٹ‘ کہلاتی ہے۔ جھنڈیوں سے سجی صاف ستھری ’خیابان طعام‘ اتنی خوبصورت تھی کہ اسلام آباد میں واقع میلوڈی کی فوڈ اسٹریٹ پر ترس آنے لگا۔

خیر ’خیابان غذا‘ پہنچے تو ہمارا حال اُس بچے کا سا تھا جسے کھلونوں کی دکان میں ہر کھلونا بھاتا ہے۔ کھانوں کی اشتہا انگیز خوشبو نے شائد صدیوں کی بھوک چمکا دی تھی لہٰذا ہر کھانے پر ہمارا دل پھسلا جا رہا تھا۔ کہیں انار دانے میں پکے کھٹے میٹھے گریوی والا پکوان تھا تو کہیں دہکتے کوئلوں پر مہکتے کبابوں سے مزیّن طعام تھا۔ کہیں فالودہ تھا اور کہیں زعفران اور تخم ملنگا سے سجے خوش رنگ و خوش ذائقہ مشروبات تھے۔

خیر دل تو پاگل ہے ہم نے وہی چکھا جو ہمارے نصیب میں تھا اور دل کو تسلی دی کہ ابھی 7 دن باقی ہیں۔

چند ضروری نکات

سچ یہ ہے کہ سفر ایران کی یہ کہانی ایک کالم میں نہیں سما سکتی ہے اس کے لیے سفر نامہ درکار ہے۔ تاہم یہاں چند ضروری نکات کی نشاندہی کرنا چاہوں گا کہ جن کی روشنی میں ہم ہزار ہا سال قدیم تہذیب کے حامل ملک ایران سے کچھ سیکھ سکتے ہیں۔

تاریخ و ثقافت پر فخر

ایران کا شمار دنیا کی قدیم ترین ریاستوں میں ہوتا ہے اور اس کا قدیم ترین شہر سوسا تین ہزار سال قبل مسیح میں دنیا کا بڑا شہر سمجھا جاتا تھا۔ قدیم طور پر ایرانی سلطنت دنیا کے 3 براعظموں تک پھیلی ہوتی تھی اور شاید یہی وجہ ہے کہ  ایران کے شہری اپنے ثقافتی اور تاریخی ورثے کا ذکر بہت فخر سے کرتے ہیں۔

سائرس اعظم اور سکندر اعظم

تہران کے میوزم میں ایرانی شہنشاہ سائرس اعظم اور سکندر اعظم کے دور کے ہزاروں سال قدیم نوادرات اب تک محفوظ چلے آرہے ہیں۔ ان نوادرات کو بہت سلیقے سے سجایا گیا ہے۔

میوزیم کی عمارت بھی عمدگی سے ڈیزائن کی گئی ہے جب کہ اسلامی دور کے لیے الگ میوزیم بھی ساتھ ہی تعمیر کیا گیا ہے، جہاں جنگِ قادسیہ کے بعد شروع ہونے والے ایران کے اسلامی دور کی یادگاریں محفوظ ہیں۔

بادشاہ ہمایوں کا ایران کی جانب فرار

ایران میں سولہویں صدی کے صفوی دور کو بہت سراہا جاتا ہے۔ اسے ایرانی قوم کی نشأۃِ ثانیہ سمجھا جاتا ہے۔ ایران کے شہر اصفہان میں صفوی دور کی تقریباً ہر یادگار کو محفوظ کیا گیا ہے۔ وہاں کی ایک عمارت میں صفوی شاہ طہماسپ صفوی اور مغل بادشاہ ہمایوں کی یاد گار ملاقات کے منظر پر مبنی پینٹنگ بھی محفوظ ہے۔

باشاہ ہمایوں اور شاہ طہماسپ کی ملاقات کا منظر

یاد رہے کہ برصغیر میں اپنے والد ظہیر الدین بابر کی وفات کے بعد مغل بادشاہ ہمایوں سلطنت پر قبضہ برقرار رکھنے میں ناکامی پر ایران فرار ہو گیا تھا، بعد میں شاہ طہماسپ صفوی کی فوج نے ہمایوں کو ہندوستان کا تخت واپس دلوانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

فارسی زبان پر فخر

اصفہان میں قدیم شاہی باغات، محلات اور یادگاروں کو قابل رشک طریقے سے محفوظ رکھا گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ مقامات سیاحوں کی دلچسپی کا باعث ہیں۔ اصفہان اور تہران سمیت ایران کے ہر شہر میں ہر جگہ فارسی زبان میں ہی بل بورڈ لگے ہیں۔ بڑے بڑے مالز میں بھی دکانوں کے نام فارسی میں لکھے نظر آتے ہیں۔ اس سے اہل ایران کا اپنی زبان پر فخر ظاہر ہوتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ انگریزی نہ سیکھنے کے باوجود ایران نے کئی نامور سائنسدان، فنکار اور ادیب  پیدا کیے ہیں، جس سے ہمارا یہ خیال غلط ثابت ہوتا ہے کہ انگریزی کے بغیر ترقی ممکن نہیں ہے۔

اہل ایران اپنے ثقافتی اور تاریخی ورثے کا ذکر بہت فخر سے کرتے ہیں۔

قومی ہیروز کے مجسمے

ایرانی اپنے شاعروں، ادیبوں، فن کاروں اور شہیدوں کی اتنی قدر کرتے ہیں کہ پارکوں، بلند و بالا عمارتوں اور اہم مقامات پر حافظ و سعدی  کے ساتھ ساتھ ماضی قریب و بعید اور دور حاضر کے معماروں، ادیبوں اور شہیدوں کے مجسمے نصب کیے گئے ہیں۔

پاکستان  میں ہمیں بھی اپنی تہذیب، ثقافت اور زبان کی اسی طرح قدر کرنا ہو گی تب ہی بطور قوم ہمارا اعتماد بڑھے گا۔

سیاحت کی بہترین سہولیات

ایران کے ایٹمی پروگرام کی وجہ سے اسے بین الاقوامی پابندیوں کا سامنا ہے اس کے باوجود ناصرف ملک میں سڑکوں، پلوں اور دیگر انفراسٹرکچر کے منصوبوں پر توجہ دی گئی ہے بلکہ سیاحوں کے لیے ہر جگہ بہترین سہولیات کو یقینی بنایا گیا ہے۔

شاندار آرام گاہ

تہران سے اصفہان جاتے ہوئے مرکزی شاہراہ پر جب ہماری گاڑی ایک ’ آرام گاہ‘ پر رُکی تو ہم وہاں موجود سہولتیں دیکھ کر حیران رہ گئے۔ اس ان ڈور ایئر کنڈیشنڈ سفری آرام گاہ میں بہترین ریستوران، کافی شاپس کے علاوہ صاف ستھرے واش رومز، مسجد اور مقامی طور پر تیار کی گئی اشیا کی دکانیں بھی تھیں۔ جگہ اتنی صاف ستھری اور شاندار تھی کہ کسی ایئرپورٹ کا وی آئی پی لاؤنج معلوم ہو رہی تھی۔ وہاں پر بیٹھنے اور کافی پینے کا خود ہی دل کرتا تھا۔

ہماری گاڑی ایک ’ آرام گاہ‘ پر رُکی تو ہم وہاں موجود سہولتیں دیکھ کر حیران رہ گئے۔

مجھے لندن اور اوسلو یاد آگیا

اسی طرح تاریخی اور سیاحتی شہر اصفہان میں صفائی ستھرائی کے اتنے شاندار انتظامات تھے کہ مجھے لندن اور اوسلو یاد آگیا۔ شہر کے ہر ریستوران میں تازہ پھول، آرائشی فانوس اور خوشبو کا انتظام ہوتا ہے۔

گرمی کے موسم میں وہاں بیٹھ کر طبیعت بغیر کچھ کھائے ہشاش بشاش ہوجاتی ہے اور جب کھانا سامنے آتا ہے تو اس کی لذت اور آرائش  سے خوش اطواری کی تاثیر روح تک اتر جاتی ہے۔

اصفہان میں صفائی ستھرائی کے اتنے شاندار انتظامات تھے کہ مجھے لندن اور اوسلو یاد آگیا۔

پاکستان کے شمالی علاقہ جات اور دیگر مقامات خوبصورتی میں شاید ایران سے کہیں آگے ہیں، مگر سہولیات ندارد۔ سیاحوں کے لیے انتظامات، صفائی ستھرائی اور کھانے کا معیار وغیرہ بہتر کرنے میں کیا امر مانع ہے؟ ہم اپنی سیاحت سے اربوں ڈالر کما سکتے ہیں مگر اس پر بطور قوم اور بطور ریاست توجہ دینا ضروری ہے۔

مقامی پیداوار پر زور

ایران کا بطور قوم اپنی تاریخ، تمدن اور زبان پر فخر ان کی زندگی کے دیگر پہلوؤں پر بھی غالب نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مقامی سطح پر چیزیں تیار کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔

ایرانی ڈارک چاکلیٹس

ہمارے وفد میں شامل جیو نیوز کی صحافی مریم نواز ایران کی ڈارک چاکلیٹس کی مداح بن چکی ہیں۔ مریم نواز نے جب ایرانی صحافی سے پوچھا کہ یہ کس برانڈ کی ہے تو اس نے فخر سے کہا کہ ہم بہترین چاکلیٹس مقامی طور پر تیار کرتے ہیں۔ چاہے کچھ خام مال باہر سے درآمد کریں۔

ایرانی فارماسوٹیکل انڈسٹری

اسی طرح ایران کے ٹیکنالوجی پارک میں ہمیں بتایا گیا کہ زرعی ادویات، تعمیراتی اشیا سے لے کر ادویات تک مقامی طور پر تیار کی جاتی ہیں۔ ایران کی 98 فیصد ادویات مقامی طور پر تیار ہوتی ہیں اور دنیا کے 5 براعظموں میں برآمد کی جاتی ہیں۔ ایران کی فارماسوٹیکل انڈسٹری اگلے سال تک 3 ارب برٹش پاؤنڈز مالیت کی ہو جائے گی۔

اہل ایران مقامی سطح پر چیزیں تیار کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔

ایران نے اپنی مصنوعات پر خصوصی توجہ دے رکھی ہے جس کی وجہ سے یہ ملک بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود اپنے پاؤں پر عزت سے کھڑا ہے۔

قومی حمیت اور مومنانہ فراست کی ضرورت

کیا پاکستان میں ٹیلنٹ یا معدنیات کی کمی ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے اور یقیناً نہیں ہے تو ہم کب پلاٹس کی خرید و فرخت کی لاحاصل تجارت سے آگے بڑھ کر مقامی صنعت کے فروغ کی طرف جائیں گے۔

ہمیں کتے اور بلیوں کی فیڈ تک درآمد کرنے جیسی ذلت سے باہر نکلنے کے لیے حکومتی اقدامات کے ساتھ ساتھ قومی حمیت اور مومنانہ فراست کا بھی مظاہرہ کرنا ہوگا اور ہر چیز اپنے ملک میں بنانے اور اپنے ملک کی اشیا خریدنے کی طرف جانا ہوگا۔

خواتین کا معیشت میں کردار

مغربی میڈیا میں ایرانی خواتین کے حجاب کے علاوہ شاید ہی کوئی بحث ہو، مگر ہم نے ایران میں خواتین کو حجاب سمیت کاروبار زندگی میں بھرپور شرکت کرتے دیکھا۔ چاہے وہ فوڈ اسٹریٹ ہو یا عظیم میلاد ٹاور، ہمیں خواتین ہر جگہ زندگی کی دوڑ میں نمایاں نظر آئیں۔

ایران بہترین چاکلیٹس مقامی طور پر تیار کرتا ہے۔

 

ہمارےوفد میں شامل معاشی رپورٹر شمس عباسی کے بقول عورتوں کو حقیقی طاقت صرف معاشی طاقت ہی دیتی ہے یعنی اگر عورت کا کاروبار اور معیشت پر کنٹرول ہو تو وہ تب ہی حقیقی خود مختار ہو گی۔

پاکستان کی آبادی کا نصف خواتین ہیں مگر کیا ہم نے ان خواتین کو وہ تحفظ اور کاروباری مواقع فراہم کر رکھے ہیں کہ وہ ملکی ترقی میں بڑھ چڑھ کر شامل ہوں؟ حالیہ برسوں میں میڈیا، پارلیمنٹ سمیت مختلف شعبوں میں ہماری خواتین کو مواقع ملے ہیں مگر وہ ان کی آبادی کے تناسب سے کافی نہیں۔

ہمیں وہ ماحول پیدا کرنا ہو گا جہاں ہماری مائیں بہنیں عزت کے ساتھ معاشی خودمختاری کا سفر طے کریں اورملکی ترقی میں اہم کردار ثابت ہوں۔

وقت اور وسائل کی قدر

ایران میں ہمیں یہ جان کر بڑی حیرت ہوئی کہ یہاں بڑے کاروباری مراکز اور بازار شام 5 بجے  بند ہو جاتے ہیں۔ ہمیں بتایا گیا کہ گرمیوں میں ایران میں دفتری اوقات صبح 6 سے دن 2 بجے تک ہوتے ہیں۔ اس طرح لوگ جلدی کام شروع کرکے چھٹی کے بعد شاپنگ بھی کر سکتے ہیں اور مغرب تک گھروں میں پہنچ جاتے ہیں۔

دوسری طرف پاکستان میں اگر حکومت 8 بجے بھی دکانیں بند کرنے کا حکم جاری کرے تو تاجروں کا اعتراض شروع ہو جاتا ہے۔ یہی بات میں نے جاپانی دارالحکومت ٹوکیو اور برطانوی شہر لندن میں بھی نوٹ کی تھی کہ رات کی شاپنگ کا کوئی مذاق نہیں۔

زندہ قومیں اپنے وقت اور توانائی کی قدر کرتی ہیں۔ دن کی روشنی میں زیادہ تر کام مکمل کرکے بجلی بچاتی ہیں، شاید اسی لیے وہاں لوڈ شیڈنگ کا نام و نشان بھی نہیں ہے۔

ایران کی پیش رفت

ایران سے واپسی پر اس ملک کے بارے میں ہمارے تصورات بالکل بدل چکے تھے۔ ایک طرف ایران نے اپنے دیرینہ حریف سعودی عرب سے دوستی کا ہاتھ ملایا ہے تو دوسری طرف پاکستان کے ساتھ مل کرعلاقائی ترقی  کی طرف قدم بڑھا دیا ہے۔ اگر ایران کی پیش رفت جاری رہی تو دور نہیں کہ بین الاقوامی پابندیاں مکمل بے اثر ہو جائیں۔

 کیا پاکستان میں عوام اور حکومت بھی اپنے پڑوسیوں سے سبق سیکھ کر ترقی اور وقار کا سفر شروع نہیں کر سکتے؟ ہماری آبادی کا زیادہ تر حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے اور ہمارا ملک بھی 76  کی عمر میں نسبتاً جوان ہے، اس لیے امید کرنی چاہیے کہ ہم اپنی غلطیوں کو سدھار کر اپنے مستقبل کو سنوار لیں گے۔ یہ میرا خواب ہے اور خواب دیکھنا جرم نہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp