آتش فشاں پریس کانفرنس

منگل 27 جون 2023
author image

حماد حسن

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ڈی جی آئی ایس پی آر نے جیسے ہی پریس کانفرنس شروع کی تو آواز کے اتار چڑھاؤ اور باڈی لینگویج سے معاملے کی سنگینی کا اندازہ وہ لوگ فوری طور پر لگا چکے تھے جو اسٹیبلشمنٹ کے بنیادی مزاج اور طرز عمل سے گہری واقفیت رکھتے ہیں۔

ماضی میں جھانک کر دیکھا تو جنرل ضیاء جیسا سفاک آمر منتخب وزیراعظم کو پھانسی چڑھانے اور طاقتور سیاسی جماعت پیپلزپارٹی سے ٹکراؤ کے باوجود بھی کبھی غصیلا دکھنا تو درکنار اپنے چہرے سے وہ مسکراہٹ تک غائب نہیں ہونے دیتا تھا جس سے بظاہر شفقت اور نرمی ٹپکتی رہتی۔

لیکن چند گھنٹے پہلے کی پریس کانفرنس میں خلاف معمول ایک ذمہ دار افسر کے چہرے سے جھانکتی تناؤ اور غصہ صرف ایک فرد تک محدود نہیں بلکہ پورے ادارے کی اجتماعی کیفیت ہی اس چہرے سے عیاں تھی.

 سانحہ 9  مئی سے جنم لینے والے حالات سے تخلیق پاتے ’سوچ اور بیانیے‘ کی پریس کانفرنس اس چونکا دینے والی لیکن قابل ستائش منطق کی بنیاد پر شروع ہوئی کہ ہم (عسکری ادارے ) نے آغاز خود احتسابی کے عمل سے کیا اور یہ ماضی کے برعکس ٹھوس شواہد اور ثبوتوں پر مبنی بھی تھا کیوں کہ ایک لیفٹیننٹ جنرل سمیت میجر جنرلز اور بریگیڈئیرز جیسے سینیئر رینک کے ڈیڑھ درجن افسران بھی ادارے کے احتسابی شکنجے میں ہیں اور یہ سب کچھ  حد درجہ خلاف معمول ہیں۔

گویا جب اپنے افسروں کے ساتھ کسی نرمی کا برتاؤ کرنے کی بجائے میرٹ پر ٹرائل کا معاملہ درپیش ہے تو پھر کسی سویلین کو کس طرح اور کون سی رعایت دی جائے گی؟

ظاہر ہے کہ اس ’انکشاف‘ کے بعد کم از کم یہ سوال اپنی اہمیت کھو بیٹھا کہ صرف پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے سیاسی ورکروں ہی کا احتساب ہو رہا ہے۔

عسکری ترجمان کا رویہ گو کہ قدرے جارحانہ لیکن ٹھوس اور مدلل تھا اس لیے شد و مد کے ساتھ ملٹری ٹرائل کو آئینی اور قانونی کہا بلکہ اس سلسلے میں انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کا حوالہ بھی دیا۔

مزید کہا کہ 9 مئی کے سانحے کے مجرموں کو سزا دینا ’لازم‘ ہے۔ ذہن میں اچانک سوال ابھرا کہ ملٹری کورٹس کے خلاف درخواست بھی تو سپریم کورٹ کے اس بینچ کے سامنے زیر سماعت ہے جس کی سربراہی چیف جسٹس عمر عطاء بندیال صاحب خود کر رہے ہیں لیکن اس (بینچ ) سے تو روز روز ججز الگ بھی ہوتے جا رہے ہیں.

لیکن پریس کانفرنس میں یہ الفاظ بھی سننے کو ملے کہ مجرموں کو سزا دینے کے عمل میں کوئی ’رکاوٹ‘ برداشت نہیں کی جائے گی۔

پریس کانفرنس کی آتش فشانی کا اندازہ اس سے لگائیں کہ جنرلز کی بیگم نواسی اور داماد کا ذکر بھی ملزمان کی حیثیت سے  کھل کر کیا گیا۔ اقتدار کی ہوس منصوبہ ساز سہولت کار  جھوٹے بیانیے سے ذہنی طور پر مفلوج کیے گئے مٹھی بھر عناصر  اور مہینوں سے بنتے منصوبے اور 9 مئی کے اس کے کلائمکس کا ذکر کرتے ہوئے کسی علامت و استعارے یا اشارے کنائے کی بجائے وضاحت اور بلند آواز کے ساتھ پیغام دیا گیا۔

یہ انکشاف بھی ہوا کہ 102 افراد کے خلاف ملک بھر میں 17 ملٹری کورٹس قائم کی گئی ہیں اور ان کا ٹرائل بھی شروع کردیا گیا ہے۔

میں لمحہ بھر کو چونکا کیوں کہ ایک دن پہلے چیف جسٹس سپریم کورٹ نے دوران سماعت کہا کہ ہمیں امید ہے کہ فیصلہ آنے تک ملٹری کورٹس میں ٹرائل شروع نہیں ہوگا۔ جس کے جواب میں اٹارنی جنرل نےکہا کہ ٹرائل ابھی شروع نہیں ہوئے لیکن یہاں تو صورتحال یکسر مختلف نظر آئی۔

عسکری ترجمان نے شہدا اور ان کی یادگاروں کی توہین اور خاندانوں کے دکھ کا ذکر کیا تو باڈی لینگویج اور چہرے کے تاثرات معمول سے ہٹ کر تھے۔

یہ دکھ یقیناً ہر پاکستانی کو ہے لیکن سوال پھر وہی کہ اس فساد کی کاشت اور آبیاری کس نے کی تھی؟

اور کیا ان قومی مجرموں سے پوچھ گچھ کا وقت اب بھی کوسوں دور ہے؟

جاتے جاتے بتاتا چلوں کہ عمران خان کی سرکشی اسے وہاں لے گئی جہاں سے فی زمانہ صرف ایک ہی راستہ نکلتا ہے۔ اختتام اور فنا کا راستہ !

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp