قربانی کیا ہے؟

ہفتہ 15 جون 2024
author image

خورشید ندیم

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

قربانی انسانی جان کی نذر ہے جوشکرانے کے طور پر خدا کے حضور میں پیش کی جا تی ہے۔
قربانی کی تاریخ اتنی ہی پرا نی ہے،جتنی مذہب کی تاریخ۔ ایک ماورائے فطرت ہستی، جسے کائنات اور زندگی کا خالق اورمنعم ِ حقیقی مانا جاتا ہے،اس کے سامنے ،انسان ہمیشہ سے نذرو نیاز پیش کر تے آئے ہیں۔ابراہیمی ادیان کا مقدمہ تخلیق (creation)کی جس بنیاد پر کھڑا ہے،اس میں انسان کا شعوری سفرآدم سے شروع ہوتا ہے۔

سب سے پہلی قربانی آدم کے بیٹوں نے پیش کی۔عہدِنامہ قدیم کے باب پیدایش میں ذکر ہے کہ آدم کے دو بیٹے تھے،قائین اور ہابل۔ہابل چرواہا تھا اور قائین کسان۔ قائین نےاپنے کھیت کے پھل خداوند کے حضور میں بطور نذر پیش کیے اور ہابل نے بھیڑ بکریوں کے پہلوٹھے کے بچے۔خدا نے ہابل کی نذر کو قبول کیا اور قائین کی نذر کو رد کر دیا(4:1-5) ۔

ہابل اور قائین کو مسلم روایت میں ہابیل اور قابیل کہا گیا۔قرآن مجید نے بھی آدم کے ان دو بیٹوں کے اس واقعے کو بیان کیا ہے،اگرچہ ان کے نام نہیں لیے۔قرآن کے مطابق جب ایک بھائی کی قربانی قبول نہیں کی گئی تواس نے غصے میں دوسرے بھائی کو مار ڈالنے کی دھمکی دی۔

نیک بھائی نے کہا :اللہ اپنے انہی بندوں کی قربانی قبول کرتا ہے،جو اس سے ڈرنے والے ہوں۔اس نے یہ بھی کہا تو مجھے مار ڈالنے کا اقدام کر سکتا ہے مگر میں اللہ سے ڈرنے والا ہوں۔گویا میں پہل نہیں کروں گا۔(المائدہ5: 27-31)

یہ کیسے معلوم ہوتا تھا کہ کسی کی قربانی قبول ہوگئی ہے؟بائیبل کے مطابق غیب سے ایک آگ نمودار ہوتی اوراس کو بھسم کر ڈالتی۔

حضرت الیاس(ایلیاہ) کے بارے میں لکھا ہے کہ انہوں نے ایک بیل کی قربانی دی جسے آگ کھا گئی(سلاطین)۔قربانی کو مگر جو عالمگیر حیثیت ملی،وہ حضرت ابراہیمؑ سے ملی۔ وہ خدا کے حکم پر جب اپنے بیٹے کوقربان کرنے پر آمادہ ہوگئے۔یہ خدا کی ایک آزمایش تھی،جس میں باپ ابراہیمؑ اور بیٹا اسماعیلؑ دونوں کامیاب رہے۔اللہ نے حضرت اسماعیلؑ کو جانوروں کی قربانی کے عوض چھڑا لیا(الصافات 37: 97-107)اس قربانی کی یاد میں ایک عظیم الشان روایت ہمیشہ کے لیے قائم کر دی گئی۔ یہی قربانی ہے جو حج اور عید الاضحیٰ کے موقع پر کی جاتی ہے۔

حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑکے قصے سے بالکل واضح ہے کہ قربانی در اصل اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا ہے۔ہم اپنی جان کا نذرانہ، جانوروں کی قربانی کی صورت میں علامتی طور پر پیش کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اس کو واضح کیا ہے کہ اُس تک نہ تو تمہارا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون۔جو چیز پہنچتی ہے،وہ تمہارا تقویٰ ہے۔

الہامی ادب اور مذہبی روایت کو سامنے رکھیں تو قربانی کے بارے میں چند باتیں واضح ہیں:
1۔قربانی ایک قدیم مذہبی روایت ہے جس کے تحت، پروردگار کے حضور میں انسان ہمشیہ نذر نیاز پیش کر تے آئے ہیں۔روایت کا ایک مقصد ہوتا ہے جو کسی متبادل سے پورا نہیں ہو سکتا۔اس کو اگر کسی بڑے تاریخی واقعے سے نسبت دینا مقصود ہو اور یہ بھی کہ انسان اس کو ہمیشہ یاد رکھیں تو لازم ہے کہ اس کی ایک مقرر صورت ہو۔

یہ خدا کے حضور میں شکر کا اظہار ہے اور اس کے ساتھ اس بات کا بھی کہ یہ جان اللہ تعالیٰ کی عطا ہے اور ہماری عبادات،قربانی، نذرو ونیاز سب اسی کے لیے ہیں۔ اس روایت کا مقصد اسی وقت حاصل کیا جا سکتا ہے جب اسے تاریخی سیاق کے ساتھ باقی رکھا جائے۔

2۔اس کو حضرت ابراہیم ؑ کے ساتھ ایک خاص نسبت ہے۔حضرت ابراہیم ؑسے انسان کی مذہبی تاریخ کے دوسرے دور کا آغاز ہوتا ہے۔الہی ہدایت کے سکیم کے مطابق،حضرت ابراہیم ؑ سے پہلے ہر قوم کی طرف نبی بھیجا جا تا تھا۔ایک عہد میں مختلف اقوام کی طرف ایک سے زیادہ انبیا بھی بھیجے گئے۔حضرت ابراہیم ؑکے بعد سلسہ نبوت کو ان کے خانوادے کے ساتھ خاص کر دیا گیا۔یہ طے کر دیا گیا کہ اب جو نبی آئے گا،وہ زریتِ ابرہیم ہی میں سے ہو گا۔

یوں حضرت ابراہیم کے بیٹےحضرت اسحاقؑ کی نسل میں نبی آتے رہے اور یہ سلسلہ حضرت مسیح ؑ پر تمام ہوا۔یہ بنی اسرائیل کی تاریخ ہے۔حضرت ابرہیمؑ کے دوسرے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کی نسل سے سیدنا محمد ؑﷺ کو منصب نبوت ورسالت پر فائز کیا گیا۔یہ بنی اسماعیل کی تاریخ ہے۔ آسمانی صحائف میں حضرت ابراہیم ؑکا جس طرح تذکرہ ہوا ہے،وہ غیر معمولی ہے۔

3۔قرآن مجید کے مطابق نبی ﷺ پر یہ وحی کی گئی کہ وہ ابراہیمی طریقے کی پیروی کریں۔(النحل16: 123) آپ نے اسی دین ِ ابراہیمی کی طرف، لوگوں کو دعوت دی جو حضرت ابراہیم ؑ نے پیش کیا تھا۔ آپ نے اس کی تجدید بھی فرمائی۔ اس سے اسلام میں قربانی کی معنویت مزید واضح ہو جاتی ہے۔

4۔قربانی کو اپنی اصل حالت میں زندہ رہنا چاہیے۔ کوئی دوسری چیز اس کا متبادل نہیں ہو سکتی۔ تاہم اسے ہر کسی پر فرض نہیں کیا گیا۔ یہ ایک نفلی عبادت ہے۔اسی لیے اگر معاشی حالات اجازت نہ دیں تو پوری بستی کی طرف سے ایک قربانی بھی کفایت کرتی ہے۔

5۔ درست راستہ اعتدال ہی کا ہے۔ ایک گھر میں بے شمار قربانیاں دی جا تی ہیں جس سے عبادت پر نمایش کا رنگ غالب آجاتا ہے۔اس سے بچنا چاہیے۔

6۔ قربانی حج سے الگ ایک عبادت ہے۔ قرآن مجید نے اسے اسی حیثیت میں بیان کیا ہے۔(الحج 22: 34)۔ اس لیے اس رائے میں وزن نہیں کہ یہ حجاج کے ساتھ خاص ہے۔

7۔چونکہ قربانی اللہ کی راہ میں دی جاتی ہے،اس لیے اللہ کے ساتھ تعلق کو اظہار بھی اچھی طرح ہونا چاہیے۔قربانی کے لیے اپنے وسائل کے مطابق، اچھے جانور کا انتخاب کرنا چاہیے۔

8۔ قربانی عید الاضحیٰ کے علاوہ بھی کی جا سکتی ہے ۔عقیقہ بھی قربانی ہی کی ایک صورت ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

دانش ور، کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ مذہب کا ریاست اور سماج سے تعلق ان کی دلچسپی کا میدان ہے۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp