25 جون کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں نا اہلی کی سزا زیادہ سے زیادہ پانچ سال کرنے کا قانون اتفاق رائے سے منظور کر لیا گیا اور اس طرح سابق وزیر اعظم نواز شریف اور جہانگیر ترین وغیرہ کے لیے اہلیت کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔
یہ قانون سینیٹ سے پہلے ہی منظور کیا جا چکا ہے ۔ یہ بل دراصل انتخابی اصلاحات بل 2017 میں ترمیم پر مبنی ہے، جس کے تحت آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نا اہلی کی سزا زیادہ سے زیادہ پانچ سال ہوگی۔ اس کے ساتھ ہی الیکشن ایکٹ 2023 کے تحت عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کا اختیار بھی الیکشن کمیشن کو دینے کی ترمیم بھی منظور کرلی گئی ہے اور اب الیکشن کمیشن صدرِ مملکت کے ساتھ مشاورت کے بغیر انتخابات کی تاریخ دے سکے گا اور الیکشن کمیشن الیکشن شیڈول میں بھی تبدیلی کر سکے گا۔
اب یہاں سوال کیا جاسکتا ہے کہ ان ترامیم کی ضرورت کیا تھی اور تاحیات نا اہلی کی سزا کیوں غلط ہے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ کسی سیاست دان کے لیے یا کسی بھی شخص پر کسی جائز اور قانونی کام کرنے کی تاحیات پابندی کسی طرح بھی صحیح قرار نہیں دی جاسکتی چاہے اس شخص سے کوئی جرم ہی کیوں نہ سرزد ہوا ہو۔
مثلاً اگر میں لکھتا ہوں اور اگر کبھی میں نے کسی کی کوئی تحریر اپنے نام سے شائع کرا دی تو بے شک یہ ایک برا جرم ہے جس کی سزا ملنی چاہیے لیکن کیا یہ درست ہو گا کہ اس جرم پر مجھے تمام عمر کے لیے لکھنے سے روک دیا جائے۔ اگر میں رکشہ چلاتا ہوں اور کبھی میں نے کسی کا رکشہ چرا لیا تو اس جرم کی سزا ہونی چاہیے لیکن کیا اس جرم پر مجھے تمام عمر کے لیے رکشہ چلانے سے روکا جا سکتا ہے؟
ایسی بے شمار مثالیں دی جا سکتی ہیں جن میں لوگ دانستہ یا نادانستہ کسی جرم کے مرتکب ہوتے ہیں لیکن ان جرائم کی سزا کے علاوہ ان پر تاحیات پابندی کا کوئی جواز سمجھ میں نہیں آتا سوائے اس کے کسی کو ذاتی عناد کی بنیاد پر کسی کام سے مستقل روکنا مقصود ہو۔
پاکستان میں سیاست دانوں کی نا اہلی کو سیاسی انتقام کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے اور سب سے بڑی تعداد میں سیاست دان جنرل ایوب خان کی فوجی آمریت کے آغاز میں 1959 میں نشانہ بنائے گئے جب تقریباً 6 ہزار سیاست دانوں کو کہا گیا کہ یا تو وہ رضا کارانہ طور پر 8 سال کے لیے خود سیاست سے دست بردار ہو جائیں یا پھر بد عنوانی کے مقد مات کے لیے تیار ہوجائیں۔
ظاہر ہے کہ جنرل ایوب اور ان کے ساتھی فوجی جنرل بلا شرکتِ غیرے ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بن بیٹھے تھے اور اُن کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ سیاست دان ہی تھے۔ اس لیے فوجی ٹولے نے تقریباً 6 ہزار سیاست دانوں کو 8 سال کے لیے سیاست سے باہر کر دیا۔ ان میں سے زیادہ تر سیاست دان انگریزوں کے زمانے سے سیاست کرتے آرہے تھے اور اُن میں مسلم لیگ، عوامی لیگ اور نیشنل عوامی پارٹی کے بڑے سیاسی رہنما بھی شامل تھے۔
یہ لوگ ملک کی سیاست میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے تھے اور ملک کو ایک جمہوری راستے پر ڈالنے کے لیے کوشاں تھے۔ یہ لوگ کوئی فرشتے نہیں تھے جیسا کہ کوئی جج یا جرنیل بھی فرشتہ نہیں ہوتا۔ ان سیاستدانوں سے غلطیاں بھی سرزد ہوئی ہوں گی جیسا کہ ججوں اور جرنیلوں نے بھی کی ہوں گی لیکن سیاست دانوں کی غلطیاں ایسی نہیں تھیں کہ انہیں اتنے طویل عرصے تک سیاست سے باز رکھا جائے۔
اس نااہلی سے ملک میں سیاسی قیادت کا بحران پیدا ہوا اور پُرانے سیاست دان جو امورِ سیاست کے اسرار و رموز سے واقف تھے ایک دم ملک میں سرگرم کردار ادا کرنے سے قاصر ہوگئے اور ان کی جگہ ایک تو فوجی قیادت دوسرا سول اور فوجی افسر شاہی نے سنبھالی جو صرف افسر شاہی کرسکتے تھے سیاست نہیں۔
اس طرح جنرل ایوب خان کا دورِ حکومت ایک طرح سے ملک میں جمہوریت اور سیاست کا پہلا قبرستان ثابت ہوا۔ جس میں سول اور فوجی افسر شاہی نے کُھل کر اپنے مفادات کی تکمیل کی اور اس عمل سے ملکی سیاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔
پھر جب جنرل یحییٰ خان نے غیر آئینی اور غیر قانونی طور پر ایک بار پھر ملک پر شب خون مارا تو شروع میں یہ عندیہ دیا کہ جنرل یحییٰ واقعی میں اقتدار سیاست دانوں کو منتقل کر دیں گے مگر جب 1970 کے انتخابی نتائج میں عوامی لیگ بھاری اکثریت سے جیت گئی تو اقتدار منتخب نمائندوں کے حوالے کرنے کے بجائے عوامی لیگ پر پابندی لگا دی گئی اور الیکشن کے نتائج منسوخ کر کے عوامی لیگ کی قیادت کو نااہل قرار دے کر سیاست سے باہر کر دیا گیا۔ جس کا اختتام شدید خون ریزی اور ملک ٹوٹنے پر ہوا۔
اس طرح ذوالفقار علی بھٹو نے نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگا کر اور اس وقت کی سب بڑی ترقی پسند اور سیکولر پارٹی کے رہنماؤں کو گرفتار کرکے نااہل کردیا۔ نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگا دی گئی اور ان کے سیاسی رہنما سیاست سے باہر کر دیے گئے گو کہ نیشنل عوامی پارٹی جمہوریت کا تسلسل چاہتی تھی اور کوئی فاشسٹ جماعت نہیں تھی اور نہ ہی ولی خان کوئی فاشسٹ رہنما تھے جیسا کہ بعد میں الطاف حسین اور عمران خان بنے۔
1977 کے ایک اور فوجی مارشل لاء کے نفاذ کے بعد پیپلز پارٹی کی اکثر قیادت کو نا اہل کر کے سیاست سے باہر رکھنے کی کوشش کی گئی اور یہ کوششیں 11 سال جاری رہیں لیکن چوں کہ کہ پیپلز پارٹی کی جڑیں عوام میں گہری تھیں لہٰذا پیپلزپارٹی 1988 میں اقتدار میں واپس آ گئی ۔
پھر 1999 کے بعد جنرل پرویز مشرف نے پی پی پی اور مسلم لیگ نون دونوں کو سیاست سے باہر رکھنے کی کوششیں کی حالاں کہ یہ دونوں جمہوری سیاسی جماعتیں تھیں اور ملک میں جمہوریت کے لیے جدوجہد کر رہی تھیں۔
2008 کے بعد جب ملک میں جمہوریت بحال ہوئی تو آصف علی زرداری اور نوازشریف دونوں نے ملک میں جمہوریت کے استحکام کے لیے مقدور بھر کوششیں کیں لیکن اس بار عدلیہ نے پہلے جسٹس افتخار چودھری کی قیادت میں پھر یکے بعد دیگرے کئی سربراہانِ عدلیہ کی سرپرستی میں ایسے فیصلے کیے جس سے سیاست دانوں کو نا اہل کر کے سیاست سے باہر کرنے کی کوشش کی گئی۔
یوسف رضا گیلانی ملک کے منتخب وزیراعظم تھے اور انہیں جسٹس افتخار چودھری نے حکم دیا کہ وہ پاکستان کے صدر آصف زرداری کے خلاف مقدمات کی بحالی کے لیے سوئٹزرلینڈ کو سرکاری خط لکھیں، انکار پر عدلیہ نے انہیں برطرف کر دیا۔
اس طرح 2017 میں اس وقت کے منتخب وزیراعظم نواز شریف کو عدلیہ نے ایک ایسے مقدمے میں نااہل کیا جس کا کوئی اخلاقی و قانونی جواز نہیں تھا لیکن ایک جسٹس کے بعد ایک اور جسٹس مسلسل سیاسی فیصلے کرتے رہے تاکہ نون لیگ کو باہر کر کے تحریک انصاف کو اقتدار دلایا جاسکے۔ اس میں جسٹس ثاقب نثار، جسٹس کھوسہ، جسٹس گلزار اور موجودہ عدلیہ تک کئی جج شامل ہیں۔
نوازشریف کی تاحیات نااہلی یا کسی بھی سیاست دان کی تاحیات نااہلی کا اختیار عدلیہ نے اپنے تئیں محفوظ کر لیا تھا جس کو بدلنا بہت ضروری تھا۔ اب اس نئے قانون کے ذریعے پارلیمان نے اپنی بالا دستی کو مستحکم کرنے کی کوشش کی جسے سراہا جانا چاہیے۔
اس طرح الیکشن کمیشن کی راہ میں صدر مملکت کی جانب سے روڑے اٹکانے کے بعد یہ ضروری ہوگیا تھا کہ کمیشن کو مزید بااختیار بنایا جائے تاکہ وہ کسی بدنیت صدر مملکت کی ریشہ دوانیوں سے محفوظ رہ کر آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کراسکے۔
اس وقت ملک میں ایسے قوانین کی ضرورت ہے جس کے تحت پارلیمان اور جمہوریت مضبوط ہوں اور ملک میں فاشزم اور فسطائیت کا راستہ روکا جاسکے ۔