پاکستان اور آئی ایم ایف حکام کے درمیان آئندہ 9 ماہ کے لیے 3 ارب ڈالرز کے نئے پروگرام کا اسٹاف لیول معاہدہ طے پاگیا ہے جو ایک ایسے وقت میں طے پایا ہے جب ملک کے غیر ملکی ذخائر تیزی سے سکڑ رہے تھے اور آئی ایم ایف کا 3 سالہ پروگرام کی مدت بھی آج یعنی جون 30 کو ختم ہورہی تھی۔
آئی ایم ایف پروگرام کی مدت ختم ہونے سے قبل قسط جاری نہ ہونے سے پاکستان کا ڈیفالٹ رسک بڑھ جاتا جو کہ اب نئے قلیل مدتی پروگرام سے کافی حد تک کم تو ہوگیا ہے لیکن اس پروگرام کی شرائط سے عوام کس طرح براہ راست متاثر ہوں گے یہ جاننے کے لیے وی نیوز نے چند ماہرین سے بات کی ہے۔
انگریزی روزنامے ایکسپریس ٹریبیون کے لیے معیشت پر رپورٹنگ کرنے والے سینیئر صحافی شہباز رانا نے وی نیوز کو بتایا کہ ’پاکستان 6 عشاریہ 5 ارب ڈالرز کا پروگرام مکمل کرنے میں ناکام ہوا اور بغیر مکمل ہوئے ہی ایک بار پھر پاکستان آئی ایم ایف کا پروگرام ختم ہوگیا ہے‘۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان اس پروگرام میں سے 2 اعشاریہ 6 ارب ڈالر کا قرضہ حاصل کرنے میں ناکام رہا کیوں کہ شرائط مکمل نہ کرنے کی وجہ سے پروگرام نامکمل ہی رہ گیا تھا۔
ماہر معاشیات پروفیسر ڈاکٹر ساجد امین نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’پالیسی میں تسلسل نہ ہونے اور شرائط پر عملدرآمد میں تاخیر کے سبب آئی ایم ایف کا ایک اور پروگرام نامکمل ہی اختتام پذیر ہوا‘۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی کاوشوں کو سراہا جانا چاہیے جنہوں نے اس نئے معاہدے کے لیے اقدامات کیے لیکن ساتھ ہی اس سے وزارت خزانہ اور دیگر متعقلہ وزارتوں کی ناقص کارکردگی بھی ظاہر ہوتی ہے جس کی وجہ سے وزیراعظم کو خود اس معاملے کو اپنے ہاتھ میں لینا پڑا۔
ڈاکٹر ساجد امین کے خیال میں پاکستان کو اب 9 ماہ سے زائد کی پلاننگ کرنی ہوگی کیوں کہ ممکن ہے کہ پاکستان کو ایک بار پھر 3 سالہ پروگرام کے لیے آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑے جس کے لیے معاشی طور پر اصلاحات کی ضرورت ہے۔
نیا معاہدہ کس طرح عوام کو متاثر کرے گا؟
شہباز رانا کہتے ہیں کہ قلیل مدتی نئے پروگرام کا فائدہ اس حد تک ضرور ہوگا کہ پاکستان کو ڈیفالٹ کا خطرہ کم ہوچکا ہے اور اس کی منظوری کے بعد پاکستان کو مزید قرضے ملنے کی بھی توقع ہے۔
شہباز رانا سمجھتے ہیں کہ ’اس پروگرام کے منفی اثرات عوام پر کافی زیادہ پڑیں گے اور بجلی کی قیمتوں اور پٹرولیم لیوی بڑھنے کی صورت میں وہ براہ راست متاثر ہوں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ بجلی کی قیمتوں اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا بوجھ براہ راست عوام پر آئے گا‘۔
انہوں نے کہا کہ ’دوسری طرف جس طرح مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہورہا تھا وہ شرح اب اتنی تیزی سے شاید نہ بڑھے کیوں کہ ایکسچینج ریٹ مستحکم ہونے کے باعث اب روپے کی قدر زیادہ نہیں گرے گی‘۔
ڈاکٹر ساجد امین کے مطابق اگر (گزشتہ دور حکومت میں) آئی ایم ایف کے پروگرام پر عملدرآمد کر لیا جاتا تو صورتحال کافی حد تک مختلف ہوتی لیکن اب نئے پروگرام کے اہداف حاصل کرنے کے لیے وہی سب کیا جائے گا جو کہ ماضی میں نہیں کیا گیا اور پروگرام نامکمل ختم ہوا۔
انہوں نے کہا کہ قلیل مدتی پروگرام میں مزید سخت شرائط رکھی جائیں گی جن میں بجلی کے نرخ میں اضافہ، مارکیٹ کے مطابق ایکسچینج ریٹ اور دیگر شرائط شامل ہوں گی لیکن پاکستان کے پاس اس مشکل وقت میں ان پر سختی سے عمل پیرا ہونے کے علاوہ کوئی آپشن بھی موجود نہیں ہے۔
ساجد امین کہتے ہیں کہ نئے معاہدے سے روپے پر دباؤ میں کمی ائے گی اور پاکستان کو دوست ممالک سے مدد ملنے کے امکانات بھی بڑھ جائیں گے۔
شہباز رانا کے مطابق پاکستان کو قلیل مدتی استحکام کے ساتھ طویل مدتی استحکام چاہیے تھا اور نیا پروگرام پاکستان کو یہ فراہم کرے گا۔