فیض احمد فیض نے شاید عیدالاضحیٰ کے بعد شہرِ بے مثال کی گلیاں دیکھ کر ہی کہا تھا کہ:
’خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد‘
کچھ ایسے ہی مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں بقر عید کے بعد، کہیں سڑک پر خون کی لکیر آپ کا راستہ کاٹتی ہے اور کہیں گاڑی گزر جانے پر سرخ ٹائروں کے نشان گواہی دیتے ہیں کہ گلی میں قربانی کا فریضہ انجام دیا گیا ہے۔ کہیں آلائشوں کے ڈھیر سے اٹھتا تعفن آپ کا دامن پکڑتا ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے۔ انتظامیہ بھی مقدور بھر کوشش کرتی ہے کہ قربانی کے ساتھ ساتھ صفائی کا عمل بھی جاری رہے، ان کی جانب سے خون پر پھینکا گیا چونا گاؤں کی یاد دلاتا ہے جب کبڈی کے میچ سے قبل چونے کی لکیریں کھینچی جاتی تھیں۔ فیض صاحب کا مصرع بھی اس لیے یاد آیا کہ آجکل برسات کا موسم ہے، ایسے میں خون پر پھینکے گئے چونے پر بارش کے چھینٹے پڑتے ہیں تو ’ملغوبے‘ سے ایسے ہولناک بدبو کے بھبھوکے اٹھتے ہیں کہ اللہ کی پناہ، اہل محلہ کو کورونا دور کے بچے ہوئے فیس ماسک لگا کر ہفتہ گزارنا پڑتا ہے۔
میرے ایک عزیز سعودی عرب سے عید منانے آئے ہوئے ہیں وہ مذکورہ رستے سے چل کر ملنے آئے کہ میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں۔ انہوں نے سلام کے بعد معانقے سے صاف انکار کرتے ہوئے اپنی سفید قیمص پر سرخ چھینٹوں کے نشان دکھاتے ہوئے بتایا کہ آپ کی گلی میں داخل ہوتے ہی ایک بچہ تیزی سے سائیکل پر گزرا اور قیمص پر سڑک پر بہتے لہو سے تجریدی آرٹ بنا گیا۔
گپ شپ اور ہنسی مذاق کے بعد میرے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ کئی بڑے اسلامی ممالک بشمول سعودی عرب میں قربانی محض مذہبی فریضہ نہیں بلکہ ایک اجتماعی سماجی ذمہ داری ہے۔ اس لیے قربانی کی رسم بہت ہی منظم طریقہ سے ادا کی جاتی ہے۔ ان ممالک میں قربانی کے لیے مخصوص سلاٹر ہاؤس (ذبح خانے) کا رخ کیا جاتا ہے۔ ہر مہذب ملک میں قربانی بند کمرے کا عمل ہے۔ اس کے برعکس پاکستان میں عیدالاضحیٰ کے موقع پر نصف ایمان یعنی صفائی کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔ گلیوں، نالیوں سے بہتا خون، سڑکوں پر آلائشوں اور کھالوں کے ڈھیر سے فضا میں خوفناک بدبو پھیلی رہتی ہے۔ یہ آلودگی ایک دن نہیں بلکہ عید قربان کے کئی دنوں بعد بھی مقدس تیوہار اور مذہبی جذبے کا منہ چڑاتی ہے۔
سعودی عرب میں سلاٹر ہاؤسز اور مطابخ کے علاوہ نجی طور پر قربانی کی قطعی اجازت نہیں۔ حکومت نے قربانی کے لیے پاک صاف اور مخصوص ذبح خانے بنا رکھے ہیں۔ قربانی کا عمل بذریعہ ٹوکن اور پیشگی ادائی کے بعد مکمل ہوتا ہے، آپ ٹوکن پر درج وقت کے مطابق اپنی قربانی کا گوشت حاصل کر سکتے ہیں اور اگر آپ گوشت کو مستحقین میں تقسیم کرنا چاہیں تو وہ بھی پہلے بتا دیں، یہ سب کام بھی کر دیا جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب ہو یا متحدہ عرب امارات کہیں بھی قربانی کسی کے لیے کوئی مسئلہ نہیں، نہ نالیوں میں خون بہتا ہے اور نہ فضا میں بدبو پھیلتی ہے۔ سب کو اس بات کا احساس ہے کہ مذہبی فریضہ کے ساتھ دوسروں کے جذبات اور ناپسندگی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس سے اہم بات صفائی اور صحت کی ہے جو سب کے لیے یکساں اہمیت رکھتی ہے۔ کس علاقے کے لوگوں کو کس سلاٹر ہاؤس کا رخ کرنا ہے یہ بھی طے شدہ ہے، کوئی افراتفری یا لوٹ مار نہیں، آپ مقررہ وقت پر جائیں اور قربانی کے گوشت کا اپنا پیکٹ لے کر گھر آجائیں۔
بیشتر ممالک میں رہائشی احاطے یا عوامی مقامات پر جانوروں کو ذبح کرنا غیر قانونی ہے، قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں بھاری جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔اگر کوئی قصاب غیر قانونی طور پر جانور ذبح کرتے ہوئے پکڑا گیا تو اسے لیبر قانون کے مطابق سزا دی جاتی ہے، اسے جیل بھیجا جا سکتا ہے اور قانونی کارروائی کے بعد ملک بدر کیا جا سکتا ہے۔ اس کے کفیل کو 15 ہزار درہم اور جانور کے مالک کو 5 ہزار درہم جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ یہ ضابطے قربانی کو ذاتی عمل بناتے ہیں جس سے کسی اور کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو، گندگی نہ پھیلے اور ماحولیاتی آلودگی کا مسئلہ پیدا نہ ہو۔
ایک اور حل’آن لائن‘ قربانی بھی ہے، رقم ادا کریں اور گھر بیٹھے اپنی قربانی کا گوشت پائیں۔ آپ خصوصی ایپس پر بھی درخواست کر سکتے اور گوشت کی ترسیل کروا سکتے ہیں۔ اس قسم کی کئی موبائیل ایپس اور ویب سائیٹ بھی دستیاب ہیں لیکن ان سے کاروبار یا لین دین صرف حکومت سے منظورشدہ ہونے پر ہی کیا جانا چاہیے۔ دبئی میں بھی قربانی کی منظور شدہ ایپلی کیشنز المواشی، ترکی، ذبیح الدار اور شباب ال فریج ہیں۔ دبئی کے باسی ان ایپس کے ذریعے درخواستیں دیتے ہیں اور انتظامیہ اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ صاف اور حلال گوشت صارفین کی دہلیز پر پہنچے۔ انتظامیہ اس بات کو بھی یقینی بناتی ہے کہ قربانی سے پہلے تمام جانوروں کا طبی معائنہ کرایا جائے بعد ازاں گوشت کا معیار بھی چیک کیا جاتا ہے۔
دبئی میں حکومت سے منظور شدہ خیراتی اداروں جیسے دارالبیر سوسائٹی، دبئی چیریٹی ایسوسی ایشن، ریڈ کریسنٹ اتھارٹی، الاحسان چیریٹی ایسوسی ایشن، بیت الخیر سوسائٹی اور یو اے ای فوڈ بینک سے قربانی کی سہولت حاصل کی جاتی ہے۔ ان کے مذبح خانوں میں نقدی قبول نہیں کی جاتی، تمام ادائیگیاں ڈیبٹ یا کریڈٹ کارڈ کے ذریعے کرنا ہوتی ہیں۔ آپ گھر بیٹھے حکومتی ضمانت پر قربانی جیسی بڑی ذمہ داری ادا کر سکتے ہیں۔
اسلامی ممالک سے ہٹ کر بات کی جائے تو امریکا اور یورپ سمیت بیشتر ممالک میں بھی قربانی کی اجازت صرف رجسٹرڈ مذبح خانوں میں ہے۔ برطانیہ میں جانوروں کا ذبح صرف تسلیم شدہ اور رجسٹرڈ سلاٹر ہاؤسز کے ذریعے ہی کیا جاتا ہے۔ گلی محلوں میں ذبح تو دور کی بات آپ جانور تک نہیں گھُما سکتے۔
میں نے پوچھا کیا یہ سب کچھ عالم اسلام کے قلعے اور پہلی ایٹمی طاقت پاکستان میں نہیں ہو سکتا؟ بالکل ہو سکتا ہے مگر یہ آسان نہیں ہوگا، جن ممالک میں یہ نظام موجود ہے وہاں کی حکومتیں اس میں براہ راست ملوث ہیں۔ کئی ممالک میں قربانی کے نظام کو دیکھا ہے جو انفرادی کاوش کا نتیجہ نہیں بلکہ حکومت کی دلچسپی اور ذمہ داری کا مظہر ہے۔ پاکستان میں اس قسم کا کوئی بھی سسٹم اسی وقت ممکن ہے جب حکومت اپنی ذمہ داری نبھائے۔ نچلی سطح پر ہر شہر کے بلدیاتی ادارے قدم بڑھائیں کیونکہ قربانی سے گوشت کی تقسیم تک کا مرحلہ بھروسے اور اعتماد کا معاملہ ہے اس پر کھرا اترنا انتظامیہ کی ذمہ داری ہوگی۔ اس کے لیے انفرادی کے بجائے بڑے اور ٹھوس قدم اٹھانا ہوں گے۔ اگر ہم چاہتے ہیں صفائی نصف ایمان کے تحت گھر گھر اور محلے محلے میں کھلے عام قربانی نہ ہو تو اس کے لیے حکومت کو بھی سرگرم ہونا پڑیگا۔ اس کا عملی تجربہ کچھ بڑے شہروں سے کیا جا سکتا ہے اور پہل اسلام آباد سے کی جا سکتی ہے۔