دہشت گردی انتہا پسندی کی بائی پروڈکٹ ہے اورانتہا پسندی کو ہمیشہ کسی نہ کسی نظریے سے جوڑا جاتا ہے۔ جبکہ نظریےاپنی اصل میں کچھ اور ہوتے ہیں اور عملی سطح پر کچھ اور۔ اس لیے ہمیں کسی بھی نظریے کا تجزیہ اس کے پیروکاروں کے عمل کو سامنے رکھ کر نہیں کر سکتے۔ مگر یہاں تنگ نظری اور کم علمی کے باعث عوام کے عمل کو نظریے کی اساس سمجھ کر نظریے سے نفرت کی جاتی ہے۔میرے خیال میں یہ ایک عمومی رد عمل ہو گا ، نہ کہ دانشمندانہ بات۔ اس بات کو ہم کچھ تاریخی مثالوں سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
بدھ مت کی بنیاد عدم تشدد پر ہے۔ جہاں انسانوں کے علاوہ حشرات، نباتات تک کو نقصان پہنچانا گویا بدھ مت کی بنیادی تعلیمات سے رو گردانی کرنا ہے۔مگر وہاں بھی روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ جو غیر انسانی سلوک کیا جاتا رہا ،وہ سب کے سامنے ہے۔ جبکہ وہاں ظلم کرنے والے تمام لوگ بدھ مت کے پیروکار ہیں، تو کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بدھ مت ہی تشدد اور انتہا پسندی کی وجہ ہے۔ہم سب کا جواب نفی میں ہو گا۔
جوزف سٹالن کا شمار سوشلزم کے اہم ترین رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ جس نے سوویت یونین پر تقریباً 29 سال تک حکمرانی کی ہے۔جبکہ سوشلزم ایک ایسا نظریہ ہے جو طبقات کو ختم کر نے اور تمام انسانوں میں برابری کی بات کرتا ہے ۔ مگر جوزف سٹالن نے اس نظریے پر عمل پیرا ہونے کے باوجود لاکھوں لوگوں کو قتل کیا۔
2011 میں، امریکی مؤرخ ٹم سنائیڈر کے مطابق سٹالن نے کم از کم 6 ملین لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ کیا اس قتل عام کی بنیاد پر ہم سوشلزمم اور انتہاپسند یا تشدد آمیز نظریہ کہہ سکتے ہیں ؟ میرے خیال میں نہیں۔9/11 کے بعد جب جارج واشنگٹن بش نے یہ بیان دیا کہ ہم چاہتے ہیں کہ امریکہ محفوظ ہو جائے ، اس کے بعد امریکی فوج کے ہاتھوں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تقریبا 10 لاکھ لوگ مارے گئے۔ جبکہ امریکہ انسانیت کا علمبردار ہے اور دنیا میں سرمایہ داریت کا امام ، تو کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ امریکہ میں سرمایہ داریت ہی تشدد اور انتہا پسندی کی وجہ ہے۔ میرے خیال میں یہاں بھی ہمارا جواب نفی میں ہو گا۔
اسی طرح اگر آپ مجھ سے یہ پوچھیں کہ کیا ہمارے معاشرے میں موجود تشدد اور انتہا پسندی کی بنیاد وہ نظریہ ہے جس پر یہ معاشرہ استوار ہے تو میرا جواب یہاں بھی نفی میں ہو گا۔ مگر میں اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ ہمارا سماجی ڈھانچہ ،نفرت اور انتہا پسندی پر استوار ہے جس کہ وجہ سے اس معاشرے میں ہمیشہ ایسے ٹرگرز پوائنٹس موجود رہتے ہیں جن میں ہلکا سا ارتعا ش بھی پورے معاشرے کو ایٹم بم میں تبدیل کر سکتا ہے۔مگر ہم یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ ہماری سوسائٹی میں موجود تشدد اور انتہا پسندی فقط ان نظریات کی وجہ سے ہے جن پر وہ استوار ہے۔
ان تمام واقعات سے یہ بات تو ثابت ہوتی ہے کہ معاشرے میں عدم برداشت،انتہا پسندی اور تشدد کے فروغ میں نظریات سے زیادہ ان شخصیات کو عمل دخل زیادہ ہوتا ہے جو خود کو اس نظریے کے رہنما بتاتے ہیں ۔ اب سوال یہ ہے کہ سماجی سطح پر موجود تشدد اور انتہا پسندی کی کیا وجوہات ہو سکتی ہیں؟ نیلسن منڈیلا اس سوال کے جواب میں کہتا ہے کہ انسان پیدائشی طور پر کسی سے نفرت نہیں کرتا، نفرت کرنا اسے سکھایا جاتا ہے، والدین سکھاتے ہیں، سکول کی کتابیں سکھاتی ہیں، میڈیا سکھاتا ہے۔ ورنہ انسان کی فطرت تو محبت کرنا ہے۔
اگر ہم انتہا پسندی کے پیچھے چھپے محرکات تلاش کرتے ہوئے واقعات کی سیڑھیاں اترتے جائیں تو آخر میں ہمارے سامنے یہ نتیجہ آئے گا کہ ہمارے معاشرے میں انتہا پسندی کی وجوہات نظریاتی نہیں ،بلکہ قانونی ہیں۔ آئین و قانون کا کمزور ہونا ہے۔ کیونکہ آئین اور قانون ہی اجتماعی سطح پر اپنے شہریوں کی جان مال اور عزت کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے ،کوئی نظریہ نہیں۔نظریہ کسی قوم کو مقصد فراہم ہے۔مشہور امریکی فلاسفر فرانسس فوکو یاما اپنی کتاب End of History میں لکھتا ہے کہ حکومتیں جمہوری اقدار، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کو فروغ دے کر انتہا پسندی کو کم کر سکتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارے معاشرے میں موجود جہالت،قانون شکنی ،اتنہا پسندی اور تشدد کو حکومت کم یا ختم کر سکتی ہے۔ اس کے لیے حکومت کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ معاشرے کو قانون پسند بنائے۔ مگر معاشرے کو قانون پسند بنانے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ اس کے ادارے قانون پسندی کا مظاہرہ کریں، اس کے سیاستدان قانون کو بالاتر مانیں۔
ہمارے ہاں معاشرہ پہلے ہی قانون شکن ذہنیت کا حامل ہے، اس کے بعد اب یہ ‘ادارے’ اور ‘سیاستدان ‘قانون کا جس طرح مذاق بنا رہے ہیں معاشرہ مزید قانون شکنی کی طرف بڑھے گا ۔ جس کے نتیجے میں سماجی سطح پرآمریت، تشدد،عدم برداشت، انتہا پسندی اور دہشت گردی کو فروغ ملے گا ۔مقتدر اداروں کا قانون توڑنا پھر اس پر فخر کرنا، مکمل سماجی تباہی کا باعث بنتا ہے۔ جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے جہا ں پوری قوم خود کش بمبار بن کر گھوم رہی ہے۔
دوسرے نمبر پر ہمارے معاشرے میں انتہا پسندی کی وجہ وہ ڈسکورس ہے جو امریکہ نے افغان سوویت جنگ کے دوران سی ائی اے کے ذریعے ترتیب دیا،جس نے ہماری سماجی ڈیمو گرافی میں تبدیلی کر کے اس میں شدت پسندی، تشدد اور دہشت گردی کے لیے خلا پیدا کیا ہے۔ اس خلا کو ختم کرنا نہ ہی ہماری اسٹیبلشمنٹ کے بس میں ہے نہ کسی سیاسی لیڈر کے۔ یہ بات بھی حقیقت ہے کہ سوویت افغان جنگ کے دوران کچھ انتہا پسند جماعتوں کو پاکستان کے آئین و قانون میں بے جا مداخلت کرنے کی اجازت دی گئی تھی جبکہ سماجی سطح پر بھی انہیں لوگوں کے نمائندوں کو مسلط کیا گیا تھا،جس کے نیتجے میں سماجی ڈیموگرافی میں بڑے پیمانے پر تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ مگر اُس وقت ڈالر لیتے ہوئے کسی نے یہ نہ سوچا ہو گا کہ مستقل میں اس تبدیلی کے کیا نتائج برآمد ہوں گے۔
اگر ہم اس شدت پسندی اور تشدد کے حل کی بات کریں تو سب سے پہلے تو ریاستی اداروں کی پالیسی غیر جانبدار بنائی جائے، نظریہ ریاست، ریاستی مفاد اور قومی نصب العین پر نظر ثانی کی جائے، تعلیمی نصاب کو از سر نو خالص سائنسی بنیادوں پر ترتیب دیا جائے ۔ میڈیا پر تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کے نمائندوں کو بین کیا جائے، وہاں سنجیدہ علمی و فکری لوگوں کو جگہ دی جائے ۔مدارس کو جدید تعلیمی نظام پر استوار کیا جائے، انہیں ریاستی سرپرستی میں لا کر ان کی بیرونی فنڈنگ کو روکا جائے، خارجہ و داخلہ پالیسی کو نفرت اور دفاع کے بجائے امن اور ترقی کے لیے استعمال کیا جائے ۔
سب سے پہلے ہمیں اپنے نصاب میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ہمارا نصاب اس قدر تضادات سے بھرا ہوا ہے کہ یہ ایک ہی وقت محمد علی جوہر اور سر سید احمد خان دونوں کو درست مانتا ہے ۔ اس نصاب کے نتیجے میں صرف ہجوم ہی پیدا ہو سکتا ہے قوم نہیں۔ ادب اپنے سماج کا آئینہ ہوتا ہے ،ہمارے ادب میں ماورائی دنیا تو ملتی ہے مگر اس میں سے اپنا سماج غائب ہے، علاوہ ازیں ہمارے اپنے ادب کو غیر ملکی مفاد کی خاطر ریاست نے بطور پروپیگنڈہ استعمال کر کے ناکارہ بنا دیا ہے ۔ اب یہ صرف انتہاپسندی ،تشدد اور بے عملی سکھاتا، برداشت ، مکالمہ اور غور و فکر اس میں سے غائب ہو چکا ہے۔
میڈیا کا مقصد صرف واقعات کی خبر دینا نہیں بلکہ اس کی وجوہات بتانا بھی ہے۔ مگر ہمارا میڈیا صرف حقائق چھپانے اور جھوٹ پھیلانے کے لیے استعمال ہوا ہے ۔ جس کے نتیجے میں ایسا میڈیا کلچر پروان چڑھا جہاں جھوٹ اور جہالت کا پرچار کیا جا رہا ہے ۔ جس کے نتیجے میں صرف انتشار اور غیر یقینی صورتحال پیدا ہو رہی ہے ۔ریاست کو سب سے پہلے ان تینوں ذرائع(نصاب،ادبِ میڈیا) پر نظرثانی کرنی چاہیے اور ان کی تشکیل نو کرنی چاہیے ۔ اس کے بعد آئین میں بنیادی تبدیلیوں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے جس سے ہمارے قومی نصب العین کا مرکز اس کی عوام کی بقا و حفاظت ہو۔ ورنہ یہی دہشت گردی، تشدد ، انتہا پسندی اور یہی معاشی و سیاسی ابتری ہمارا مقدر رہے گی ۔