نڈر یوکرینی مصنفہ نے وطن پر جان نچھاور کردی

پیر 3 جولائی 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ایوارڈ یافتہ یوکرینی ناول نگار، مضمون نگار اور جنگی جرائم کی محققہ وکٹوریہ امیلینا گزشتہ ہفتے ایک ریسٹورنٹ پر ہونے والے روسی میزائل حملے میں زخمی ہوجانے کے باعث زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسیں۔

پیر کو شائع ہونے والی گارجین کی رپورٹ کے مطابق ادبی تنظیم ’پین یوکرین‘ نے اعلان کیا ہے کہ وکٹوریہ ڈنیپرو کے ایک اسپتال میں انتقال کرگئی ہیں۔ دنیا بھر کے سیاسی و ادبی حلقوں نے معروف نامور ناول نگار کی معاشرے کے لیے سرگرمیوں اور ان کی نثر نگاری کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ انتقال کی خبر سن کر اسپتال پر امیلینا کے خاندان کے افراد کے علاوہ دوستوں اور مداحوں کا بھی تانتا بندھ گیا تھا۔

37 سالہ امیلینا نے اپنے ناول ڈومز ڈریم کنگڈم سمیت دیگر شاندار کاموں کے صلے میں سنہ 2021 میں جوزف کونریڈ ادبی ایوارڈ بھی حاصل کیا تھا جب کہ انہیں یورپی یونین کے ادب کے انعام سمیت دیگر بڑے ایوارڈز کے لیے بھی نامزد کیا گیا تھا۔

وہ سنہ 2022 کے روسی حملے کے بعد اپنی ناول نگاری کو بلائے طاق رکھ کر جنگی جرائم کو دستاویزی شکل دینے اور فرنٹ محاذ اس کے قریب بچوں کے لیے خدمات انجام دینے میں مشغول ہوگئی تھیں۔

اس سانحے پر ٹوئٹر پر اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے ناول نگار اینڈری کورکوف کا کہنا تھا کہ ’وکٹوریہ امیلینا یوکرینی مصنفین میں سب سے زیادہ درد دل رکھنے والی اور فلاحی کام کرنے والی خاتون تھیں جنہوں نے ہمیشہ اپنی ذات سے زیادہ دوسروں کا بھلا کیا‘۔

وکٹوریا کے کارناموں میں ایک یہ بھی شامل تھا کہ انہوں نے روسی فوجیوں کے ہاتھوں اغوا اور قتل ہونے والے ایک ساتھی مصنف ولادیمیر واکولینکو کی ڈائری کا کھوج لگا لیا تھا جو مقتول کے باغ میں دفن تھی اور روس کے مبینہ مظالم کے بارے میں ایک دستاویز کی حیثیت رکھتی تھی۔

انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ مشرقی کراماتورسک میں عام شہریوں سے بھرے ایک مشہور ریستوراں پر وکٹوریہ کو ہلاک کرنے والا حملہ بھی ایک جنگی جرم ہے۔ اس حملے میں 13 افراد کی جان چلی گئی جب کہ 60 سے زائد زخمی ہوئے۔ حملے کے وقت مصنفہ کولمبیا کے صحافیوں اور مصنفین کے ساتھ جنگی جرائم کو بے نقاب کرنے اور عالمی سطح پر یوکرین کے لیے حمایت پیدا کرنے کے لیے محو سفر تھیں۔

وکٹوریہ ان خطرات سے بخوبی واقف تھیں جو انہیں درپیش تھے۔ ان کے اس مقصد کا تقاضا یہی تھا کہ وہ روسی ہتھیاروں کی تباہ کن طاقت کا قریب سے معائنہ کریں۔ اپنی موت سے 7 ماہ قبل ہی وہ کہہ چکی تھیں کہ ’ہم اپنی آزادی کے متوالے ہیں اور اس کے لیے مرنے کے لیے بھی تیار ہیں، روسی ہمیں اس کے لیے معاف نہیں کریں گے‘۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایک حملہ آور فوج جو یوکرین کے وجود کے حق سے انکار کرتی ہے وہ فنکاروں اور مصنفین کو بھی نشانہ بنائے گی اور یہ ایک صدی قبل سوویت یونین میں مارے جانے والے دانشوروں کے قتل عام کا احیا ہوگا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اب پھر خطرہ درپیش ہے کہ روسی یوکرین کی ثقافت کی ایک اور نسل کو موت کے گھاٹ اتاریں گے، لیکن اس بار میزائلوں اور بموں کے ذریعے۔

وکٹوریہ نے اپنے ملک اور اس کے کمزور طبقے کے لیے شروع کیے گئے اپنے مشن کو اپنی جان اور حفاظت پر مقدم رکھا تھا اور وہ جنگی جرائم کے ثبوت اکٹھے کرنے میں کوشاں تھیں۔

انہوں نے ایک موقعے پر ٹوئٹر پر یہ بھی لکھا تھا کہ ’یوکرین کے لوگ سلامت رہیں گے، ہنسیں گے اور جنگ نہیں بلکہ پھر سے ادبی میلے منعقد کریں گے، میں وعدہ کرتی ہوں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp